پچھلے دنوں رابی پیر زادہ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ یہ کہہ رہی ہیں کہ ہمارے ہاں ایک خاص کلاس میں عورتیں مردوں کے حقوق ادا نہیں کرتیں بلکہ ان کے ساتھ زیادتی کرتی ہیں۔ اس پر لبرلز کو آگ لگی ہوئی ہے۔ فیمنسٹوں اور لبرلز کا اس قدر اثر ہے کہ اب تو بہت سے مذہبی حلیے والوں کو بھی یہ پسند نہیں آتا کہ آپ مرد کے حق میں خیر کے دو جملے ہی کہہ دیں۔ ان کے خیال میں مرد ہر صورت اور ہر کلاس میں ظالم ہی ہے اور ہوتا ہے۔ یہی حققیت ہے، اسی کو قبول کرو۔
یہاں کوئی بھی کبھی مردوں کے حق میں دو جملے لکھ دے یا کہہ دے تو ایک خاص کلاس کی عورتوں کو آگ لگی جاتی ہے کہ عورت کے خلاف لکھا ہے۔ تو جب عورت کے حقوق پر لکھا جاتا ہے تو کیا وہ مرد کے خلاف لکھا جاتا ہے۔ اس وقت عورتوں کے حقوق کی این جی اوز بہت زیادہ ہو گئی ہیں، کیا مرد اور کیا عورتیں، دونوں ہی عورتوں کے حقوق کے ترانے پڑھنے میں لگے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مردوں کے حقوق پر بھی بات کی جائے۔
اس دنیا میں ہر طبقہ اپنے حقوق کی جنگ لڑتا ہے، کوئی مزدور سے نہیں کہتا کہ وہ سرمایہ دار کے حقوق کی بات کرے، کوئی مالک سے توقع نہیں رکھتا کہ وہ ملازم کے حقوق کی جنگ لڑے۔ لیکن مرد صرف وہ مظلوم طبقہ ہے کہ جس سے یہ امید لگائی جاتی ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق کی جنگ بھی لڑے اور اپنے حق کی بات بھی نہ کرے۔ کیا منافقت ہے!
ایک مرد اگر اپنے حقوق کی بات نہیں کرے گا تو کون کرے گا! دنیا کا ہر طبقہ اپنے حقوق کی جنگ لڑتا ہے نہ کہ دوسرے کی۔ یہ فطری امر ہے۔ صرف مرد سے یہ توقع کیوں ہے کہ وہ عورت کے حقوق کی جنگ لڑے اور وہ بھی اپنے آپ سے، کمال ہے۔ عورتیں صرف اظہار زیادہ کرتی ہیں ورنہ مردوں کی تکلیف، اذیت ان سے بہت بڑھ کر ہوتی ہے۔ اسے اللہ نے مرد بنایا ہے، وہ اپنی مرادنگی کے خلاف سمجھتا ہے کہ زیادہ رونا دھونا کرے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ رونا دھونا کرنے والیوں کے مسائل بھی زیادہ ہیں اور تکلیف بھی۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا ادب تخلیق کیا جائے جو مرد کے درد کو اظہار کی زبان دے، ایسا آرٹ تخلیق کیا جائے، جو مرد کی تکلیف کی صورت گری کرے۔ عورتوں کے حقوق کے ترانے بہت پڑھے جا چکے ہیں اور پڑھے جا رہے ہیں، کوئی خدمت خلق کرنی ہے تو مردوں کے حقوق کی این جی او ہی کھول دیں۔ اور کچھ نہ سہی، کم از کم یہ تاثر تو زائل ہو کہ عورت ہی ہر جگہ اور ہر صورت مظلوم ہوتی ہے۔
یہاں ہر طبقے کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے، خاص طور عورتوں کے حقوق پر تو مارچ بھی ہوتے ہیں، کبھی مردوں کے حقوق کے عالمی دن کا سنا ہے کہ جس سے توقع یہ ہے کہ وہ سب کے حقوق کا عالمی دن مقرر کرے۔ تو اس کے اپنے کوئی حقوق نہیں ہیں، اس نے صرف دینا ہی دینا ہے، لینا اس کا کام نہیں ہے کیا۔ وہ کہیں سے لے گا تو آگے دے گا۔ جب اسے کچھ ملے گا ہی نہیں تو آگے کیا بانٹے گا۔ اسے بھی تو تعلق چاہیے، محبت چاہیے، عزت چاہیے، احترام چاہیے بلکہ وہ سب کچھ چاہیے جو عورت مرد سے مانگتی ہے۔
ایچ ایم زبیر