سوال (1432)

شیوخ کرام ۔ کل ایک آدمی نے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میں نے مرحب کا سر کاٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تھا۔
میں نے اسے کہا کہ میرے علم کے مطابق اس طرح کی روایت مسند احمد میں آتی ہے، لیکن وہ ضعیف ہے۔، تو اس شخص نے فورا کہا کہ بہت سی حدیثوں کو ہم نے ضعیف کہہ کر انہیں چھوڑ دیا ہوا ہے، اگر قیامت کے دن معاملہ اس کے برعکس نکلا تو کیا کریں گے؟ یعنی اگر کسی حدیث کو ہم نے کسی ایک راوی کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے ترک کردیا ہے تو ممکن ہے کہ اس جھوٹے شخص نے یہ بات سچ بیان کی ہو، لیکن ہم نے اس کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے اس ک بیان کردہ حدیث کو ترک کردیا، تو قیامت کے روز اس حدیث کو ترک کرنے پر ہم مجرم بن جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ شیوخ کرام اس بات کے متعلق وضاحت فرمادیں۔ شکریہ

جواب

مسند احمد کی جس روایت میں ذکر ہے کہ علی رضی اللہ عنہ مرحب یہودی کا سر اتار کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، وہ روایت ثابت نہیں ہے۔ جیسا کہ احمد شاکر، شعیب ارناؤوط وغیرہ محققین نے مسند کے حاشیے میں (رقم الحديث:888) اس کی وضاحت کی ہے۔
نوٹ: اس روایت پر حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر میں کلام کیا ہے [التلخيص الحبير 3/ 223 ط قرطبة] بعض معاصرین نے اس کو نقل کرتے ہوئے، اس میں اس انداز سے قطع و برید کی ہے، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ روایت ’متفق علیہ’ ہے، حالانکہ یہ صریح غلطی ہے۔ دیکھیں:[العزيز شرح الوجيز = الشرح الكبير للرافعي – ط العلمية 7/ 357 حاشیہ]
البتہ یہ بات صحیح بلکہ متواتر ہے کہ اس کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہی قتل کیا تھا، جیسا کہ امام حاکم نے ذکر کیا ہے:

“إِنَّ الأَخْبَارَ مُتَوَاتِرَةٌ بِأَسَانِيدَ كَثِيرَةٍ أَنَّ قَاتِلَ مَرْحَبٍ أَمِيرُ المُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بنُ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه”. [المستدرك:5899]

جہاں تک یہ بات ہے کہ جس روایت کو ہم موضوع و من گھڑت یا ضعیف کہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ صحیح ہو؟
یا جس راوی کو ہم جھوٹا سمجھتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی صحیح بات بھی کر جائے، لہذا ہر راوی کی ہر بات کو رد کرنا درست نہیں؟!
تو یہ کمزور اشکال ہے، اس بنیاد پر تو آپ کسی چیز پر کوئی حکم نہیں لگا سکتے، کیونکہ دین سارے کا سارا روایت پر مبنی ہے، اور اس کا ایک بہت بڑا حصہ ’ظنی’ ہے۔ جس میں کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ آپ نے جس کو سچ کہا، ہو سکتا ہے وہ جھوٹ ہو اور جس کو جھوٹ کہا، ہو سکتا ہے کہ وہ سچ ہو!
یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ قیامت والے دن اللہ رب العالمین ہمیں کسی جھوٹی روایت کو رد کرنے پر مواخذ کریں گے، کیونکہ یہ تو خود اللہ رب العالمین کا حکم ہے قرآن کریم میں:
إن جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا.
کہ خبر کی تحقیق کیا کرو..
اگر ہم نے ہر جھوٹی سچی بات کو ماننا ہی ہے، اس ڈر سے کہ کہیں غلطی سے کوئی چیز رد نہ ہو جائے، تو پھر تحقیق کرنے کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟
پھر جس طرح انہوں نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جھوٹا آدمی کبھی درست روایت بھی بیان کر دے، تو اسی طرح یہ بھي ہو سکتا ہے کہ جھوٹا آدمی کبھی سچی گواہی دے دے… حالانکہ قرآن کریم میں ہی جھوٹے یعنی غیر عادل آدمی کی گواہی کو رد کرنے کا حکم دیا گیا ہے!
اور اگر اس اشکال کو درست مان لیا جائے، تو یہ تو صحیح روایات کے متعلق بھی پیش کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ جس روایت کو آپ صحیح بلکہ متفق علیہ کہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اس میں راوی سے غلطی ہو گئی ہو؟
جس طرح صحیح سے غلطی کے امکان پر صحیح کو رد کرنا درست نہیں، اسی طرح جھوٹے سے سچ کے امکان پر اس کی بات کو ماننا بھی غلط ہے!
یہ اللہ رب العالمین کا نظام ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو ایک دوسرے کے لیے وسیلہ اور ذریعہ بنایا ہے اور اس میں کھرے کھوٹے کی پہچان کے اصول بتا دیے ہیں، ہم نے انہیں اصولوں کے مطابق چلنا ہے اور یہی ہم سے مطلوب ہے!
اندر والی باتیں یہ اللہ رب العالمین کے سپرد ہیں، ہم اس کے مکلف نہیں ہیں!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

دور حاضر کا المیہ یہ ہے کہ سمجھ لیا گیا ہے ، کہ ہر ضعیف حدیث ناقابل عمل اور لائق ترک ہے ۔ یہ موقف علمی نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ