سوال (1774)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ماریہ قبطیہ سے نکاح کیا تھا ، وہ آزاد کرنے کہ بعد نکاح کیا تھا یا لونڈی کی ہی حیثیت سے تعلق قائم کیا تھا ؟

جواب

اس بات سے تو یقینا کسی کو انکار نہ ہوگا کہ سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردے میں رکھا ہے ، اُس معاشرے میں پردہ شرف و بزرگی کی کیسی علامت تھی ؟ اس سلسلے میں بخاری کی ایک اہم روایت ، جس کا تعلق گو کہ سیدہ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا سے ہے ، کا اہم ترین حصہ پیش کیا جاتا ہے۔

“فقال المسلمون : إحدى امهات المؤمنين ، أو مما ملكت يمينه ؟ فقالوا : ان حجبها فهى من امهات المؤمنين ، و ان لم يحجبها فهي مما ملكت يمينه ، فلما ارتحل وطالها خلفه و مد الحجاب بينها و بين الناس.”
[صحیح بخاری ، كتاب النكاح ، باب اتخاذ السراري و من اعتق جاريته ثم تزوجها ]

«بعض مسلمانوں نے پوچھا کہ حضرت صفیہ امہات المومنین میں سے ہیں (یعنی آپ نے ان سے نکاح کیا ہے ) یا لونڈی کی حیثیت سے ہیں۔ اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے پردہ کا انتظام فرمائیں تو وہ امہات المومنین میں سے ہیں ، اگر ان کے لیے پردہ کا اہتمام نہ فرمائیں تو وہ لونڈی کی حیثیت سے ہیں۔ پھر جب کوچ کا وقت ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی سواری میں بیٹھنے کی جگہ بنائی اور ان پر پردہ ڈالا تاکہ لوگوں کو نظر نہ آئیں»
امام ابن کثیر کی یہ روایت بھی اہمیت کی حامل ہے :

“قال يونس بن بكير عن محمد بن اسحاق عن ابراهيم بن محمد بن علی بن ابي طالب عن أبيه عن جدة على بن أبي طالب قال : اكثروا على مارية أم ابراهيم في قبطى ابن عم لها يزورها و يختلف اليها فقال رسول الله الله خذ هذا السيف فانطلق فان وجدته عندها فاقتله قال قلت يا رسول الله الله أكون في أمرك إذا ارسلتني كالسكة المحماة لا يثنيني شئ حتى أمضى لما أمرتني به أم الشاهد يرى ما لا يرى الغائب فقال رسول الله له بل الشاهد يرى ما لا يرى الغائب فاقبلت متوشحا السيف فوجدته عندها فاخترطت السيف فلما رآنی عرف أني أريدة فأتى نخلة فرقى فيها ثم رمى بنفسه على قفاه ثم شال رجليه فاذا به أجب أمسح ماله مما للرجال لا قليل و لا كثير فأتيت رسول الله فأخبرته فقال الحمد لله الذي صرف عنا أهل البيت”
[البداية والنهاية : 304 /5]

خلاصہ کلام : جب سیدہ ماریہ پر ان کے عم زاد برادر مابور کے ساتھ تہمت تراشی کی گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کو بھیجا ، سی نا علی نے مابور کو نامرد پایا اور نبی کریم ماہور نا کی خدمت میں عرض حال کیا۔ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب تعریف اللہ کی ہے ، جس نے ہم اہل بیت سے اس تہمت کو رفع فرما دیا ، یہاں سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا کا شمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت میں فرمایا ۔
علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق :
مقوقس نے دو لڑکیاں جو بھیجی تھیں ان میں سے ایک ماریہ قبطیہ تھیں جو حرم نبوی میں داخل ہوئیں ، دوسری سیرین تھیں جو حضرت حسان کی ملک میں آئیں ۔
اس واقعہ کو اس حیثیت سے دیکھنا چاہیے کہ یہ دونوں عورتیں لونڈیاں نہ تھیں اور اسلام قبول کر چکی تھیں اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماریہ سے نکاح کیا ہوگا نہ کہ لونڈی کی حیثیت سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم میں آئیں ۔ [سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ۲۷۳/۱]

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ