سوال (3460)
قرآن مجید کی روشنی میں آفات سماوی کے تین اسباب ہوتے ہیں: باعمل مسلمانوں پر آزمائش اور رفع درجات کے لیے، گناہگار مسلمانوں پر توبہ کہ طرف متوجہ کرنے کے لیے، کفار کے لیے یہ سراسر عذاب ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس تکلیف کا کوئی بدلہ آخرت میں نہیں ملنا، حوالے کے ساتھ وضاحت فرما دیجئے.
جواب
مصائب کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں:
(1) آزمائش کے طور پر مصائب کا آنا۔
وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ *وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ ۞ [سورة البقرة: 155]
اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔
انبیاء کرام رضی اللہ عنھم کے زندگی سے بھی کئی مثالیں ملتی ہیں۔
اسی طرح بعض مشکلات مصائب گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔
جیسا کہ حدیث میں کانٹے کےلگنے پر بھی گناہ معاف ہونے کا ذکر ہے۔
[بخاری: 5641]
اسی طرح حدیث میں ہے جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے۔
[بخاری: 5645]
(2) تنبیہ کے لیے:
وَلَنـــُذِيۡقَنَّهُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰى دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَكۡبَرِ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ [سورة السجدة : 21]
بالیقین ہم انھیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے علاؤہ چکھائیں گے تاکہ وہ لوٹ آئیں
(3) بطور عذاب مصائب کا آنا:
بعض مصائب بداعمالیوں کی وجہ سے بھی آتے ہیں گناہوں پر پکڑ کی وجہ سے۔
وَمَاۤ اَصَابَكُمۡ مِّنۡ مُّصِيۡبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِيۡكُمۡ وَيَعۡفُوۡا عَنۡ كَثِيۡرٍؕ [الشورى: 30]
تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے* ، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے
فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُكِّرُوۡا بِهٖ فَتَحۡنَا عَلَيۡهِمۡ اَبۡوَابَ كُلِّ شَىۡءٍ ؕ حَتّٰٓى اِذَا فَرِحُوۡا بِمَاۤ اُوۡتُوۡۤا اَخَذۡنٰهُمۡ بَغۡتَةً فَاِذَا هُمۡ مُّبۡلِسُوۡنَ [الأنعام :44]
پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جس کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کردیئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔
فَكُلًّا *اَخَذۡنَا بِذَنۡۢبِهٖ ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ اَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِ حَاصِبًا ۚ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ اَخَذَتۡهُ الصَّيۡحَةُ ۚ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ خَسَفۡنَا بِهِ الۡاَرۡضَ ۚ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ اَغۡرَقۡنَا ۚ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَـظۡلِمَهُمۡ وَلٰـكِنۡ كَانُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ يَظۡلِمُوۡنَ [العنكبوت : 40]
پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
اسی طرح قوم عاد ثمود،قوم نوح، آل فرعون پر عذاب کا ذکر قرآن پاک میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ