سوال (4840)
سعودی عرب کی مساجد میں جو ٹیک لگائی جاتی ہے، لوگ جمعہ کے خطبہ کے دوران بھی ٹیک لگا کہ بیٹھے ہوتے کیا یہ عمل درست ہے راہنمائی درکار ہے؟
جواب
ہمارے علم میں جمعہ کے دن ٹیک لگانے کی ممانعت پر تو دلیل موجود نہیں ہے البتہ سلف صالحین نے اسے پسند نہیں کیا ہے، البتہ کوئی شرعی عذر ہو تو ٹیک لگا لینی چاہیے ہے کیونکہ مجلس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔
عبدالرزاق ﻋﻦ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ، ﻋﻦ ﻋﻄﺎء، ﻛﺮﻩ ﺃﻥ ﻳﺘﻜﺊ اﻟﺮﺟﻞ، ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ، ﻭاﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ ﺇﻻ ﻣﻦ ﻋﻠﺔ، ﺃﻭ ﻛﺒﺮ، ﺃﻭ ﺳﻘﻢ، [مصنف عبد الرزاق: 5448، صحيح]
عبد الرزاق ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺇﺫا ﻃﻮﻝ اﻹﻣﺎﻡ اﻟﺨﻄﺒﺔ، اﺗﻜﺄ ﻋﻠﻲ، [مصنف عبد الرزاق: 5449، صحيح]
اسی طرح ہم وضاحت کرتے چلیں کہ جمعہ کے دوران احتباء کی ممانعت والی روایت ضعیف ہے اور اس کے برعکس دوران خطبہ احتباء کرنا سلف صالحین سے ثابت ہے، ہم نے تحقیق مشکوۃ المصابیح میں جو تعلیق لگائی ہے وہ پیش خدمت ہے۔
مثلا: ﺃﺑﻮ ﺃﺳﺎﻣﺔ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻳﺤﺘﺒﻲ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭاﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ[مصنف ابن أبی شیبہ: 5245، شرح مشكل الآثار للطحاوى:7/ 343 سندہ صحیح]
ابن عبدالبر نے کہا:
ﻭﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻗﺪ ﺭﻭاﻩ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﻋﻦ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻭﻟﻢ ﻳﺮﻭ ﻋﻦ ﺃﺣﺪ ﻣﻦ اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ ﺧﻼﻓﻪ ﻭﻻ ﺭﻭﻱ ﻋﻦ ﺃﺣﺪ ﻣﻦ اﻟﺘﺎﺑﻌﻴﻦ ﻛﺮاﻫﻴﺔ اﻻﺣﺘﺒﺎء ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺇﻻ ﻭﻗﺪ ﺭﻭﻱ ﻋﻨﻪ ﺟﻮاﺯﻩ ﻭﺃﻇﻦ ﻣﺎﻟﻜﺎ ﺳﻤﻊ ﻭاﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ ﻣﺎ ﺭﻭﻱ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ ﻣﻦ ﻛﺮاﻫﻴﺔ اﻻﺣﺘﺒﺎء ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭاﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ ﻭﺃﻧﻪ ﻗﺪ ﻗﺎﻝ ﺑﻪ ﻗﻮﻡ ﻭﻟﻢ ﻳﺼﺢ ﻋﻨﺪﻩ ﻭﺻﺢ ﻋﻨﺪﻩ ﻓﻌﻞ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻭﺑﻠﻐﻪ ﻓﺄﺩﺧﻠﻪ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺑﻪ،
[الاستذكار لابن عبد البر: 2/ 53]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺃﺳﺎﻣﺔ، ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ ﺳﺎﻟﻤﺎ( هو ابن عبد الله، ﻭاﻟﻘﺎﺳﻢ( هو ابن محمد )، ﻳﺤﺘﺒﻴﺎﻥ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭاﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ،[مصنف ابن أبی شیبہ: 5240 سندہ صحیح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻷﻋﻠﻰ، ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﺴﻴﺐ، ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻣﺤﺘﺒﻴﺎ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭاﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ،[مصنف ابن أبی شیبہ: 5239 سندہ صحیح]
اسی طرح امام عطاء بن ابی رباح،امام حسن بصری وغیرہ سے دوران خطبہ احتباء ثابت ہے۔
اگر کوئی اس کی ممانعت پر صحیح حدیث ہوتی تو صحابی رسول اور تابعین وغیرہ کیوں ایسا کرتے۔
مزید دیکھیے مصنف ابن أبی شیبہ میں:
[مسائل الإمام أحمد و إسحاق بن راهويه: 2/ 874] میں ہے۔
ﻗﻠﺖ: اﻟﺮﺟﻞ ﻳﺤﺘﺒﻲ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭاﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ؟
ﻗﺎﻝ: ﺃﺭﺟﻮ ﺃﻥ ﻻ ﻳﻜﻮﻥ ﺑﻪ ﺑﺄﺱ
ﻗﺎﻝ ﺇﺳﺤﺎﻕ: ﻛﻤﺎ ﻗﺎﻝ
امام ترمذی نے کہا:
ﻭﻗﺪ ﻛﺮﻩ ﻗﻮﻡ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ اﻟﺤﺒﻮﺓ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭاﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ، ﻭﺭﺧﺺ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ ﺑﻌﻀﻬﻢ ﻣﻨﻬﻢ: ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻭﻏﻴﺮﻩ، ﻭﺑﻪ ﻳﻘﻮﻝ ﺃﺣﻤﺪ، ﻭﺇﺳﺤﺎﻕ ﻻ ﻳﺮﻳﺎﻥ ﺑﺎﻟﺤﺒﻮﺓ ﻭاﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ ﺑﺄﺳﺎ،
سنن ترمذی:(514) کے تحت:
ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ: ﻭﻛﺎﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻳﺤﺘﺒﻲ ﻭاﻹﻣﺎﻡ ﻳﺨﻄﺐ، ﻭﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ، ﻭﺷﺮﻳﺢ، ﻭﺻﻌﺼﻌﺔ ﺑﻦ ﺻﻮﺣﺎﻥ، ﻭﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﺴﻴﺐ، ﻭﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ اﻟﻨﺨﻌﻲ، ﻭﻣﻜﺤﻮﻝ، ﻭﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﻭﻧﻌﻴﻢ ﺑﻦ ﺳﻼﻣﺔ. ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺑﺄﺱ ﺑﻬﺎ ﻭﻟﻢ ﻳﺒﻠﻐﻨﻲ ﺃﻥ ﺃﺣﺪا ﻛﺮﻫﻬﺎ ﺇﻻ ﻋﺒﺎﺩﺓ ﺑﻦ ﻧﺴﻲ،
السنن الکبری للبیھقی:(5910)
مزید الاستذكار لابن عبد البر میں ہے۔
ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ ﻭﻛﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻭﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﺷﺮﻳﺢ ﻭﺻﻌﺼﻌﺔ ﺑﻦ ﺻﻮﺣﺎﻥ ﻭﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﺴﻴﺐ ﻭاﻟﻨﺨﻌﻲ ﻭﻣﻜﺤﻮﻝ ﻭﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﻳﺤﺘﺒﻮﻥ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ
ﻭﻗﺎﻝ ﻧﻌﻴﻢ ﺑﻦ ﺳﻼﻣﺔ ﻻ ﺑﺄﺱ ﺑﻬﺎ ﻭﻟﻢ ﻳﺒﻠﻐﻨﻲ ﺃﻥ ﺃﺣﺪا ﻛﺮﻫﻬﺎ ﺇﻻ ﻋﺒﺎﺩﺓ ﺑﻦ ﻧﺴﻲ
ﻭﺭﻭﻱ ﻓﻲ ﻏﻴﺮ اﻟﻤﻮﻃﺄ ﺟﻮاﺯ اﻻﺣﺘﺒﺎء ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻋﻦ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﻣﻦ اﻟﺴﻠﻒ
ﻭﻫﻮ ﻗﻮﻝ ﻣﺎﻟﻚ ﻭاﻷﻭﺯﻋﻲ ﻭاﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﻭاﻟﺜﻮﺭﻱ ﻭﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ ﻭﻣﺤﻤﺪ ﻭﺃﺣﻤﺪ ﻭﺇﺳﺤﺎﻕ ﻭﺃﺑﻲ ﺛﻮﺭ ﻭﺩاﻭﺩ، الاستذكار لابن عبد البر:2/ 54
اور مزید دیکھیے الاوسط لابن المنذر:4/ 81تا84
معلوم ہوا احتباء کرنا جائز ہے اور یہ ایسا فعل نہیں جو جمعہ کے آداب واحکام کے منافی ہو کیونکہ اجلہ کبار سلف صالحین سے اس پر عمل ثابت ہے اگر یہ آداب جمعہ کے خلاف عمل ہوتا تو یہ کبار سلف صالحین ومحدثین ہرگز ایسا نہ کرتے ۔هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
مجبور اور ضرورت مند آدمی کا ٹیک لگانا اس میں کوئی حرج نہیں ہے، خواہ وہ دیوار کے ساتھ ہو، کرسی کے ساتھ ہو، جدید دور کے ٹیک ہوں، ایک خاص کیفیت ہے، جس کو گھوٹ مار بیٹھنا کہا گیا ہے، وہ چیز غلط ہے، اس کو احتباء کہتے ہیں، اس چیز کی ممانعت ہے، ہاتھوں کو تشبیک دے کر یا چادر کے ساتھ گٹھنے پکڑے ہوئے ہوں، یہ چیز منع ہے، اگر کوئی ضرورت مند ہے تو وہ دیوار کے ساتھ بیٹھ جائے، یا کرسی لے کر بیٹھ جائے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ