سوال (5170)
“مررت علی موسیٰ و هو یصلی فی قبره”
صحیح مسلم کی یہ روایت اس کے علاؤہ
“الانبياء احياء في قبورهم يصلون” اور “عن يوسف بن عطیه قال: سمعت ثابتا البناني يقول لحميد الطويل هل بلغك ان احدا يصلى في قبره الا الانبياء قال لا”
روایات مسئلہ حیات النبی پر پیش کی جاتی ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب
“الانبياء احياء في قبورهم يصلون”
یہ روایت ضعیف ہے، اس میں سخت ضعف ہے، باقی موسی علیہ السلام والی روایت جو سوال میں ذکر ہے، اس کا تعلق معراج سے ہے، معراج اول تا آخر معجزہ ہے، معجزہ عقل سے ماوراء ہوتا ہے، اس پر صرف ایمان لانا ہوتا ہے، معجزے سے استدلال نہیں کیا جاتا، یہ اہل علم کی بحث کا خلاصہ ہے، وہ ایک عالم تمثیل تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھائی بھی ہے، حتی کہ معراج میں یہ بھی چیز آپ کو ملے گی، جو چیز پیدا ہی نہیں کیے گئے تھے، ان کا بھی عذاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھایا گیا تھا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
1. اس کی سند ضعیف ہے۔ مسند ابی یعلی: 3424
ابن سعيد، عن الحجاج، عن ثابت البنانى، عن أنس بن مالك، قال رسول الله ﷺ: «الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ في قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ، (مسند أبي يعلى- ت السناري ٥/٢٠٢)
حجاج کی توثیق ثابت نہیں۔ سندہ،ضعیف
2. ثابت بنانی رحمہ اللہ والے اثر کی سند میں یوسف بن عطیہ متروک راوی ہے۔
3. صحیح مسلم: 6158 کی یہ حدیث تو صحیح ہے۔
لیکن یہ خاص معجزہ ہے. اس سے یہ دلیل لینا کہ انبیاء کرام علیھم السلام قبروں میں زندہ اور نماز پڑھتے ہیں درست نہیں.
جس طرح عیسی علیہ السلام زندہ اٹھالیے گئے یہ معجزہ ہے,اس یہ عموم.پر دلیل نہیں لی جاسکتی کہ انبیاء کرام علیھم السلام کو موت سے پہلے ہی اٹھالیا جاتا.
انبیاء کرام علیھم السلام کی قبر کی زندگی برزخی ہے جس کا دنیا کی زندگی سے کچھ تعلق نہیں.
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ
یہ روایت اپنی تمام اسانید کے ساتھ معلول ومنکر ہے
صحیح مسلم کی حدیث میں جو بیان ہے وہ معجزہ ہے جو صرف رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ یا دیگر انبیاء کے ساتھ خاص ہوتا ہے
معجزہ کو دلیل بنانا جہالت و بے اصولی اور محض سینہ زوری ہے۔
اور سلف صالحین کے اجماعی عقیدہ سے انحراف ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ