مسئلہ فلسطین اس وقت مسلمانوں یا یھودیوں کے آپسی مسئلے کے علاوہ دنیا کی بڑی قوتوں کا میدان جنگ بھی ہے۔
جس میں وہ مذہب کے نام پر اپنے مہروں کا استعمال کر کے اپنی رِٹ قائم کرنا چاہتے ہیں!
وہ بڑی قوتیں جو اپنا ورلڈ آرڈر منوانا چاہتی ہیں دو بلاک ہیں ایک طرف امریکہ اور اسکے الائیز یورپی یونین،جاپان،ساؤتھ کوریا اور دیگر جبکہ ایک طرف روس،چائنہ،ایران اور دیگر انکے ساتھ والے ممالک ہیں۔
اس مسئلہ کو مذہب کا رنگ اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ عام لوگ انکا مہرہ بن سکیں چونکہ اس طرح مہرہ بننا آسان ہے اس لیے مذہب کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔
اسرائیل خود سیکولر یہودیوں نے بنایا تھا جبکہ روایتی یہودی جو راسخ العقیدہ ہیں وہ اس ریاست کے ہی حق میں نہیں تھے اور آج تک اس ریاست کو ناجائز سمجھتے ہیں۔
روایتی یہودی مصادر میں فلسطین سے باہر کے یہودیوں کو وہاں دیوار بن کر جانے سے سختی سے منع کیا گیا تھا۔ یہودی شارحین کا ماننا یہ تھا کہ جب تک مسیح کی آمد نہیں ہوجاتی، اس وقت تک یہودی جمع نہیں ہوں گے۔ اگر بالفرض مسیح آبھی گئے تو فوری طور پر یہودی وہاں جمع نہیں ہوں گے بلکہ ان کو امتحان کے طور پر پہلے جنگلات سے گزارا جائے گا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مسیح کی آمد کے لیے کثرت سے دعائیں مانگنے تک سے منع کیا گیا ہے کہ آخری دور کو قریب کرنے کی کوشش نہ کرو. ان کے کچھ ماضی کے یہودی علماء تو کسی ایک فرد کے بھی وہاں ہجرت کرنے کو ممنوع سمجھتے تھے۔
ان ساری وجوہات کے سبب بہت سے روایتی یہودی اسرائیل کی ریاست کے قیام کو سرا سر ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہ روایتی یہودی یہودیوں کے اندر بھی بہت زیادہ روایتی مانے جاتے ہیں، ان کو الٹرا-آرتھوڈوکس(Ultra-Orthodox)اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے۔اس موضوع پر(Vayoel Moshe)ایک طویل محققانہ کتاب ہے جو کہ ایک یہودی عالم نے اسرائیل بننے کے کچھ ہی عرصے بعد لکھی تھی۔ یہ عالم اسرائیل کے خلاف ہمیشہ لکھتے رہے ہیں اور یروشلم میں ان کا ایک پورا ادارہ موجود ہے۔انگریزی میں حال ہی میں اس موضوع پر ایک کتاب (I will wait Him) لکھی گئی ہے۔
تاریخ میں بھی جب بھی ان سیکولر لوگوں نے کوئی بڑا پلان تیار کرنا ہو تو وہ مذہب کا نام ہی استعمال کرتے ہیں حالانکہ خود عمل سے کورے ہوتے ہیں. ہندوتوا(Hindutva) ہو یا صیہونیت (Zionism)ہو، سب قومیت پسند سیکولر لوگوں کے مذہبی بیانیہ کے نتیجہ میں سرگرمیاں ہیں۔
کوئی ہندوتوا نظریے کا حامی کسی بھی صورت دھرم سوتروں یا دھرم شاستروں کے مطابق حکومت کرنے کا ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچ سکتا. اسی طرح کوئی صیہونی کبھی توریت نافذ نہیں کرسکتا۔
یہ سب تاریخ کے اعتبار سے سیکولر یا اپنے اعتراف سے دہریے ہی رہے ہیں۔ مذہب کو صرف اپنی سیاسی حمایت اور قوّت کے لیے استعمال کیا۔ اپنی روح کے اعتبار سے یہ سب قومیت پسند فلسفوں کے مثل ہی ہیں جن کے سبب گزشتہ صدی میں خوب جنگیں ہوئیں اور زمین خون سے بھرگئی۔
اس مسئلہ میں مذہبی لوگوں کو سیکولر لوگوں نے استعمال کیا آج بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ حماس کے حملہ کو آفیشلی ایران کے علاوہ کسی بھی مسلم ملک نے صحیح نہیں کہا.! سعودیہ ہو یا ترکیہ سب نے اسکی دبے لفظوں میں مذمت کی ہے اور صلح کروانے کی کوشش کی ہے جبکہ امریکہ،یورپی یونین، فرانس،جرمنی اور اسکے باقی الائیز نے اسرائیل کیساتھ مکمل یکجہتی کا اظھار کیا ہے۔
مڈل ایسٹ بہت اہم خطہ ہے دنیا کی سب بڑی قوتوں کیلئے ایران تو پہلے ہی روس،چائنہ بلاک کیساتھ کھڑا ہے اور اسرائیل امریکہ کے بلاک میں ہے بلکہ اسکو بنایا ہی اس لیے گیا تھا اور باقی عرب ممالک پہلے سے تو امریکی بلاک میں ہی شامل رہے ہیں اگرچہ کچھ سال تناؤ بڑا بھی ہے بالخصوص شاہ فیصل کے دور میں لیکن یہ سبھی عرب ممالک امریکی بلاک میں کھڑے ہیں اسی لیے انکے تعلقات اسرائیل کیساتھ صحیح رہے ہیں۔
لیکن اب برکس میں شمولیت کی وجہ سے سعودیہ نے اپنے تعلقات دونوں بلاکس کیساتھ برابری پر چلانے کی کوشش کی ہے۔ ساری بحث کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے حملے بڑی طاقتوں کے اپنی سوفٹ پاور شو آف کرنے ک طریقے ہوتے ہیں جن میں عام لوگ صرف مہروں کا کردار ادا کرتے ہیں کچھ پیسوں کیلئے تو کچھ مذھب کے استعمال پر لیکن جو مرتے ہیں یا جنکا نقصان ہوتا ہے وہ سبھی چھوٹے لوگ ہوتے ہیں استعماری قوتوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
اب دیکھو اس حملے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جنگ آگے تک جائے گی یا رک جائیگی؟ کیونکہ اسرائیل اور اسکے ساتھ والی دیگر قوتوں کا ردعمل کافی سخت ہے جبکہ ایران اور دیگر الائیز بھی تیار ہیں روس تو پہلے سے ہی جنگ میں ہے فی الحال تو یقین کے ساتھ کچھ بھی کہنا ٹھیک نہیں ہوگا یہ سب تو وقت ہی بتائے گا مگر بظاہر جو فیصلہ لیا گیا، وہ غزہ کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔غزہ کے لوگوں کو اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے وہاں سے نکلنے کی دھمکی دی ہے کیونکہ انکا غزہ میں سب تباہ کرنے کا ارادہ ہے جتنے اسرائیلی مرے، اتنے ہی فلسطینی مرچکے ہیں کچھ پتا نہیں کہ اب کیا ہونے والا ہے مگر اندیشہ ہی زیادہ ہے۔
عمیر رمضان