سوال (3318)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم مسئلہ تقدیر کو سمجھنے کے لیے کون سی کتاب کا مطالعہ کیا جائے؟
جواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ تقدیر اہم مسائل میں سے ہے، اور بہت سارے لوگ اس حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں، اور امتِ مسلمہ میں رونما ہونے والے فتنوں میں اوائل فتنوں میں سے ایک فتنہ قضاء و قدر سے متعلق انحراف اور گمراہی تھی.
یہی وجہ ہے کہ شروع سے ہی اہلِ علم اس کے متعلق لکھتے آ رہے ہیں۔
اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا یہ ایمان کے چھے ارکان میں سے ایک ہے۔ اس لیے تفسیر، حدیث، عقیدہ وغیرہ ہر کسی قسم کی کتابوں میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود اہل علم نے بالخصوص تقدیر کے مسئلہ پر الگ سے کتابیں بھي تصنیف فرمائی ہیں۔
مکتبہ شاملہ میں ’القدر’ لفظ لکھیں آپ کے سامنے عربی زبان میں درجنوں کتابیں آ جائیں گی۔ جیسا کہ امان ابن وہب، فریابی، بیہقی وغیرہ متقدمین کی اس پر مستقل تصانیف ہیں، اسی طرح ابن تیمیہ، ابن قیم وغیرہ متاخرین محققین نے بھی اس پر تفصیل سے لکھا ہے۔ ابن قیم کی کتاب کا نام ہے:
شفاء العليل في مسائل القضاء والقدر والحكمة والتعليل
معاصرین میں شیخ ابن عثیمین، ان سے پہلے ان کے استاذ عبد الرحمن بن ناصر السعدی اور موجودہ علماء میں جامعہ اسلامیہ کے استاذ ابراہیم الرحیلی، اسی طرح عمر سلیمان الاشقر وغیرہ اہل علم نے القضاء والقدر کے ناموں سے کتابچے اور رسائل ترتیب دیے ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا ہے کہ عقیدے کی تمام کتابوں میں بھی اس کی وضاحت موجود ہے جیسا کہ العقیدۃ الطحاویہ اور اس کی شروحات۔
ان میں سے کئی کتابوں کے اردو تراجم بھی ہو چکے ہیں، جنہیں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ کتاب وسنت ڈاٹ کام پر میں نے ’تقدیر’ لکھ کر سرچ کیا ہے، اردو زبان میں تین چار کتابیں پی ڈی ایف میں موجود ہیں۔
مسئلہ تقدیر میں الجھاؤ کی بنیادی وجہ خالق اور مخلوق کا فرق نہ کرسکنا ہے، جب انسان اللہ کی ذات، اس کی حکمت اور فیصلوں کو انسانوں کی طرح سوچنا سمجھنا شروع کر دیتا ہے تو پھر اشکال پیدا ہوتے ہیں اور جونہی اسے یہ سمجھ آ جاتی ہے کہ اللہ رب العالمین کے لیے کچھ بھی ناممکن اور محال نہیں تو اس کے ذہن سے سارے اشکالات کافور ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی سب کو ایمان و ایقان کی دولت سے مالا مال فرمائے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
دکتور ابراہیم الحمد حفظہ اللہ کی کتاب” الایمان بالقضاء والقدر” اس مسئلے ميں آسان ترین کتاب ہے.
والله اعلم
فضیلۃ العالم عبد العزیز آزاد حفظہ اللہ