سوال (5355)

میری زوجہ میرے والد محترم کے ساتھ رات کو اکثر انڈین ڈرامہ دیکھنے کی عادی بن چکی تھی۔ رات کو اکثر میں کام سے آتا آرام کیلیے اپنے بستر پر سو جاتا کچھ دیر کے بعد جب آنکھ کھلتی تو میری زوجہ میرے بستر پر موجود نا ہوتی اس پر کئی بار اس عمل پر سمجھایا اور اللہ سے ڈرایا۔ کئی روز مسلسل منع کرنے کے باوجود میری زوجہ نے اصلاح نا کی پھر اس بات پر میں نے کچھ سختی گرمی اور ناراضگی کا اظہار کیا۔لیکن اسکا بھی کوئی اثر نہ ہوا، مجبورا پھر مجھے ایک شرط رکھنی پڑی کہ اگر آئندہ تم نے والد گرامی کے ساتھ اکیلے بیٹھ کر ڈرامہ دیکھا تو پھر تمھیں طلاق واقع ہو جاۓ گی۔ (اس کا مقصد پابند کرنا تھا کہ دوبارہ اس عمل سے بعض رہے)
اسکے بعد آج کے روز تک بھی مجھے نہیں معلوم کہ کسی روز میری زوجہ نے والد گرامی کے ساتھ بیٹھ کر کبھی وہ انڈین ڈرامہ دیکھا ہو۔ پھر اچانک اٹھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد گھر میں کسی بات پر اختلاف ہوا تو میری زوجہ نے یاد دہانی کے طور پر یاد دلایا کہ مجھے آپ پہلے بھی ایک عدد طلاق دے چکے۔ اس جملے پہ مجھے ایک دم حیرانگی ہوئی۔ حیرانگی پر مجھے زوجہ نے سابقہ واقعہ یاد کروایا۔ میں نے فورا اپنی زوجہ سے سوال کیا کہ کیا آپ نے والد گرامی کے ساتھ بیٹھ کر دوبارہ کہیں ڈرامہ دیکھا؟ زوجہ نے جواب دیا نہیں ایسا تو نہیں ہے۔ پھر میں نے پوچھا طلاق کیسے ہوگئ ؟ اس پر میری زوجہ نے اظہار خیال کیا: چونکہ والد گرامی کہ کمرے میں ٹی وی لگا ہوا تھا جس پر آتے جاتے نظر ضرور پڑی ہوگی جس وجہ سے مجھے خطرہ لاحق ہے کہ کہیں یہ مشروط طلاق واقع نا ہو گئی ہو۔ لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرما دیں کیا اس واقعہ میں طلاق واقع ہو چکی ہے؟

جواب

پیارے بھائی پہلے تو آپ ان کو یہ سمجھائیں کہ بیوی کو اس طرح طلاق سے کنٹرول کرنا شریعت میں درست نہیں ہے شریعت نے بیوی کو کنٹرول کرنے کے تین طریقے قرآن میں بتائے ہیں:

وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ.

یعنی پہلے نصیحت کرو دوسرے نمبر پہ بستر الگ کر لو تیسرے نمبر پہ ہلکی مار مارو ورنہ پھر سنت کے مطابق طلاق دے دو بدعی طلاق گناہ ہے۔
سوال میں جو طلاق ہے وہ طلاق معلق ہے جو بدعی طلاق کی قسم ہے جس میں طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق رکھا گیا ہے اسکے واقعہ ہونے کے بارے میں کچھ اختلاف ہے مگر جمہور کے ہاں یہ واقع ہو جاتی ہے۔
میرے نزدیک سوال میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوئی اسکی دو بڑی وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جو شرط رکھی ہے اس کے الفاظ میں ابہام یا ایک سے زائد احتمال ہیں کہ والد کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے میں کیا گزرتے ہوئے نظر پڑنا بھی آ جاتا ہے یا نہیں پس جب ابہام ہو تو وہ الفاظ چونکہ شوہر نے ادا کیے ہیں تو اسکی نیت کو دیکھا جائے گا پس شوہر کی شرط کی نیت اگر مکمل بیٹھ کر پورا دیکھنے کی تھی خالی گزرنے کی نہیں تھی تو پھر تو طلاق نہیں ہو گی اور میرے نزدیک یہی امکان ہے کیونکہ گزرتے ہوئے تو وہ خود بھی دیکھتا ہو گا تو بیوی کو کیسے منع کر سکتا ہے۔
طلاق نہ ہونے کی دوسری وجہ میں تھوڑی تفصیل ہے نیچے سمجھاتا ہوں۔
مذکورہ طلاق طلاق معلق ہے جس میں طلاق کا ہونا کسی شرط کے ساتھ نتھی ہو ایک گروہ (بشمول اکثر احناف) کے ہاں شرط جب پوری ہو گی تو طلاق واقع ہو جائے گی البتہ دوسرے گروہ کے ہاں معلق طلاق میں شرط مختلف قسم کی ہو سکتی ہے اور طلاق کا حکم بھی ان اقسام کو دیکھ کرلگایا جائے گا اور میرے نزدیک یہی راجح ہے اسکی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
شرائط کی اقسام کا انحصار دو چیزوں پہ ہوتا ہے۔
1. پہلی یہ کیا شرط طلاق دینے کی کوئی عقلی وجہ بن سکتی ہے یا نہیں مثلا اگر کہے کہ بیوی نے نافرمانی کی تو طلاق ہو گی تو یہ طلاق دینے کی وجہ ہو سکتی ہے لیکن اگر کہے کہ سورج نہ نکلا تو طلاق ہو گی تو یہ طلاق کی عقلی وجہ نہیں بن سکتی۔
2. دوسری یہ کہ کیا فعلِ شرط کسی کے کنٹرول میں ہے یا نہیں مثلا کوئی کہے کہ اگر عورت نے بیٹی پیدا کی تو اسکو طلاق ہو گی تو یہ وجہ تو بن سکتی ہے لیکن عورت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔
یہ سمجھنے کے بعد اب ہم معلق طلاق کی مندرجہ ذیل تین قسمیں کر سکتے ہیں۔
1۔ پہلی وہ شرط جو شرطِ محض ہو۔ یعنی جس میں اصل مقصد طلاق دینا ہی ہو البتہ شرط طلاق دینے کی وجہ نہ بن سکتی ہو نہ وہ شرط کسی کے کنٹرول میں ہو مثلا کوئی کہے کہ میری بیوی کو طلاق ہو گی جب بھی بارش ہو گی یا میری بیوی کو طلاق ہو گی جب سورج نکلے گا یا میری بیوی کو طلاق ہو گی جب بھی میری بیوی سے بیٹی پیدا ہوئی
پس ایسی شرائط کے ساتھ معلق طلاق کا مقصد طلاق دینا ہی ہوتا ہے صرف اسکا وقت اس شرط کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے تو ایسی طلاق ہو جاتی ہے۔
2۔ دوسری وہ شرط جو یمین محض ہو یعنی اس شرط سے یہ پتا چلتا ہو کہ مقصد طلاق دینا نہیں تھا بلکہ شرط جس فعل کے ساتھ معلق ہوتی ہے اس پہ قسم دینا یا لینا مقصود ہوتا ہے ایسی شرط طلاق دینے کی وجہ نہیں ہوتی ہاں یہ انسان کے کنٹرول میں ہوتی ہے تبھی تو قسم بن سکتی ہے کہ وہ فعل خاوند یا بیوی یا کوئی اور نہیں کرے گا مثلا کوئی کہے کہ اگر میں نے تمھارے ساتھ کاروبار میں دھوکا کیا تو میری بیوی کو طلاق ہو گی اب یہ طلاق کی وجہ نہیں بن سکتی مگر فعلِ شرط خاوند کے کنٹرول میں ہے پس یہ یمین یا قسم کے معنی میں ہو گی اور اس پہ طلاق نہیں ہو گی بلکہ ایسا کرنے پہ اسکو قسم کا کفارہ دینا ہو گا۔
یہاں یہ کلیئر کر دوں کہ اگر کوئی کہے کہ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ کل بارش نہیں ہو گی اگر بارش ہو گئی تو میری بیوی کو طلاق ہو گی تو بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ وہ طلاق نہیں بلکہ قسم دینا چاہتا تھا اوریہ شرط طلاق کی وجہ بھی نہیں اور انسان کے کنٹرول میں بھی نہیں۔ البتہ جس پہ کنٹرول نہ ہو اس پہ قسم کھانا جہالت ہے الا یہ کہ کوئی کوئی اللہ کا ولی دین کی سربلندی کے لئے اللہ کو قسم دے۔
3۔ تیسری وہ شرط جس میں شرط محض اور یمین دونوں کا احتمال ہو اسکا فعلِ شرط انسان کے کنٹرول میں ہوتا ہے اور یہ طلاق کی وجہ بھی ہو سکتی ہے مگر کلیئر نہیں ہوتا کہ مقصد طلاق دینا تھا یا قسم دینا تھا اس لئے اس میں نیت کو دیکھا جائے گا مثلا کوئی کہے کہ اگر میری بیوی گھر سے باہر نکلی تو میری بیوی کو طلاق ہو گی اب ہو سکتا ہے کہ اسکا مقصد بیوی کو قسم دینا ہو کہ تم گھر سے باہر نہ نکلنا اوپر سوال میں ایسی ہی صورت لگتی ہے جس میں مرد کی نیت دیکھی جائے گی اور وہ سوال میں بریکٹ میں لکھی ہوئی ہے کہ شوہر کی نیت اسکو طلاق دینا نہیں تھا بلکہ صرف اسکو اس کام سے روکتے ہوئے اسکو قسم دینا تھا کہ یہ کام نہ کرنا پس میرے نزدیک یہ طلاق نہ ہونے کی واضح وجہ بن سکتی ہے شیخ ناصر البانی رحمہ اللہ سے بھی ایک ملتا جلتا فتوی ہے یہ قسم سمجھی جائے نے بھی ایک فتوی میں ایسا کہا ہوا ہے کہ اگر شوہر کہے کہ مجھ پہ تم کو طلاق دینا واجب ہو گا اگر تم فلاں جگہ جاو گی اور اسکا مقصد بھی طلاق دینا ہو تو تب وہ فعل ہونے پہ طلاق ہو جائے گی ورنہ وہ قسم ہی وہ گی۔
واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

سائل: عرصہ ڈیڑھ سال سے میں نے اپنی پہلی زوجہ کے علم میں لائے بغیر دوسرا نکاح کر رکھا تھا۔ حسب معمول میری زوجہ شکی مزاج تھی اور ہمیشہ تجسس کا شکار رہتی اسی دوران میرا موبائل چیک کرنے پر زوجہ 1 کو علم ہوگیا تو زوجہ نے فساد برپا کردیا۔ بہت سمجھانے اور کہنے کے باوجود زوجہ نے یقین و تسلیم نہ کیا۔ اور زوجہ ۱ نے زوجہ ثانی کی والدہ سے رجوع کیا جو کہ قریبی عزیز بھی ہیں اور اہل علاقہ بھی یعنی ایک ہی سوسائٹی میں رہایش پزیر بھی ہیں۔
زوجہ ثانی کی والدہ سے رابطہ کر کہ مختلف الزامات اور شدید کردار کشی شروع کردی۔
میرے بھی اور میرے والدین کے لاکھ سمجھانے کے باوجود زوجہ 1 اپنے فسادات پر ڈٹی رہی۔ حتی کہ میرے علم میں لائے بغیر زوجہ ایک نے میرے گھر میں زوجہ ثانی اور اس کی والدہ کو مدعو کیا اور بہت سے جھوٹ باندھے اور لعن طعن کیے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نا تھا۔
اگلے ہی روز جب مجھے علم ہوا پھر میں نے زوجہ سے پوچھا کیا میرے گھر کوئی آیا تھا میری زوجہ نے صاف انکار کردیا جب میں نے سختی سے پوچھا میرے سامنے جھوٹی قسم تک بھی اٹھالی۔ اور پھر زوجہ ثانی کی والدہ سے رابطہ کرکہ انھیں بھی پابند کردیا کہ میرے بارے میرے شوہر سے بالکل ذکر نا کیا جاۓ۔ جس کا جب مجھے علم ہوا تو مجھے بہت طیش آیا زوجہ 1 کو سمجھایا وعظ و نصیحت کی اور پھر پابند کیا کہ اگر آئندہ کسی بھی معاملے میں زوجہ ثانی کی والدہ سے بات چیت یا خبر رسانی کی تو تجھے طلاق واقع ہو جاۓ گی۔
اس پر زوجہ1 نے جواب دیا یہ تو ہونا ہی ہے اب آپکو ہم دونوں میں سے ایک کو ہی رکھنا ھے۔ اب میں خاموش نہ رہوں گی۔ وغیرہ وغیرہ
جس پر میں نے کافی شرعی طور پر بھی اخلاقی طور بھی سمجھانے کی بے حد کوشش کی۔ حتی کہ یہ معاملہ اتنا طول پکڑا کہ زوجہ1 کے والدین نے بھی اپنی بیٹی کو بہت سمجھایا کہ شرعی اعتبار سے بھی دوسرے نکاح میں کوئی ممانعت نا ہے وغیرہ وغیرہ۔
پھر بھی ایک روز زوجہ ہنسی خوشی اپنے والدین سے ملنے اپنے میکے گئی۔اور دوبارہ وہاں جا کہ فساد برپا کردیا کہ میں اب واپس نہیں جاؤں گی
والدین نے پھر بہت وعظ و نصیحت کی جسکا کوئی اثر نہ ہوا اور زوجہ 1 اپنے والدین سے بھی اختلاف اور نافرمانی کرتے ہوئے اپنے عزیز و اقارب کے ہاں چلی گئ۔ اور وہاں جانے کے دو چار روز بعد عزیز و اقارب نے میرے بچے سنبھالنے سے انکار کردیا۔ زوجہ 1 نے بچے مجھے واپس بھیج دیے جس پر مجھے کوئی اعتراض نہ ہوا۔ بلکہ بچوں کی حسب معمول تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کردیا۔
عرصہ ایک سال مکمل ہوچکا ہے میرے بچے اپنی دوسری والدہ کے پاس رہتے ہیں اور ابھی مجھے اچانک سے خبریں مل رہی ہے کہ میری زوجہ یہ دعوی کر رہی ہے کہ مجھے یہ والی مشروط طلاق واقعہ ہو چکی ہے۔
پھر میں نے اس واقع کی تصدیق کرنا چاہی لیکن ابھی تک مجھے اس کے شواہد نا مل سکے کہ زوجہ ۱ کا زوجہ ثانی کی والدہ سے رابطہ قائم ہوا ہو۔ لیکن میری زوجہ کا کہنا ہے کہ مجھے یہ والی طلاق واقع ہوچکی ہے۔
کیا میری زوجہ کا یہ کہنا ہی کافی ہے یا اس کے لیے کوئی شواہد یا ثبوت کی ضرورت ہوگی۔
قرأن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمادیں۔
اس صورتحال میں طلاق واقع ہو چکی ہے؟

جواب: انا للہ وانا الیہ راجعون
بھائی آپ سے پیشگی بہت بہت معذرت کرتا ہوں جو میں نیچے کہنے جا رہا ہوں۔
میرے خیال میں کراچی میں ڈاکو اتنا زیادہ پستول کو ہتھیار کے طور پہ استمال کر کے لوگوں سے بات نہیں منواتے ہوں گے جتنا آپ طلاق کو ہتھیار بنا کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں مجھے تو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت کو ہتھیار کے لاسنس کی بجائے آپ جیسے لوگوں کے لئے طلاق کا لائسنس اشو کرنا چاہئے انا للہ واناالیہ راجعون اللہ آپ کی غلطیوں کو معاف کرے اوپر سمجھایا ہے کہ طلاق ان کاموں کے لئے نہیں ہوتی بلکہ ان کاموں کے لئے وہ تین طریقے ہیں جو قرآن نے سمجھائے ہیں کہ پہلے نصیحت کرو پھر بستر الگ کرو پھر ہلکا مارو پھر سنت طلاق دے دو
دیکھیں عمر ؓ کے بارے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے وہ تین طلاقوں کو تین طلاقیں ہی کیوں نافذ کر دیا تھا اب سمجھ آ رہی ہے کہ اس طرح کے لوگوں کو دیکھ کر ہی تعزیرات کے طور پہ وہ کرنا مجبوری بن گئی ہو گی
باقی بھائی بخاری میں ہے کہ عبداللہؓ بن عمرؓ سے جب کوفہ والے نے مکھی کے مارنے پہ محرم کے لئے دم کا سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے حسین کو شہید کر دیا اس وقت نہیں سوچا نہ توبہ کی تو تمھیں مکھی مارنے کی کیا فکر ہے۔
پس بھائی میں تو جواب دینے سے معذرت کرتا ہوں ہاں آپ مکمل رجوع کریں اور پرانی باتوں کی تلافی کرنا چاہئے تو ہمارے شیوخ یہاں موجود ہیں میں تو کمزور یا بندہ ہوں وہ آپ کو پھر مزید سمجھا سکتے ہیں میں نے جو بتانا تھا اور وضاحت سے بتا دیا تھا آپ کو دلی تکلیف ہوئی ہو تو معذرت مگر مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اور کیا کہتا۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

سائل: حضرت سائل کا سوال ہے میرا ذاتی عمل نہیں!
نمبر دو یہ ہے کہ اب تو یہ مسائل پیش اچکے ہیں وہ عمل بار بار دہرا چکے ہیں۔ ان کے مذکورہ بالا اعمال کے پیش نظر طلاقیں واقع ہوچکیں یا نہیں اسی بابت پوچھنا چاہ رہے ہیں۔
بارہا یہ عمل کرنا واقع ہی مذموم ترین ہے لیکن مشروط طلاق کی شریعت میں کسی حد تک اجازت ہے شاید اسی لئیے ہی احادیث میں ابواب قائم کئے گئے؟
جواب: محترم بھائی میں نے آپکی بات ہی نہیں کی اوپر اسی کو مخاطب کیا ہے سوال کرنے والے کو
معذرت آپ نے غلط سمجھا،
باقی میں نے تفصیل سے اوپر اصول لکھ دیے تھے اس کے مطابق وہ اپنی نیت کو دیکھ کر فیصلہ کر سکتا ہے۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ