سوال (103)
ہمارے گاؤں میں ایک ہی مسجد ہے، وہ گاوں کی ایک سائیڈ پہ بنائی گئی ہے، جس طرف مسجد بنائی گئی ہے وہاں قریب کے جو گھر ہیں وہ فجر کی نماز میں حاضر نہیں ہوتے ہیں، اس صورتحال میں کیا ہم فجر کی نماز اپنے گھروں میں کوئی جگہ مختص کر کے پڑھ سکتے ہیں، ہمارے پاس ایک گھر خالی بھی ہے۔ اس گھر کو ہم نماز فجر کیلئے مصلی بنا سکتے ہیں؟
جواب
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“خَلَتِ الْبِقَاعُ حَوْلَ الْمَسْجِدِ، فَأَرَادَ بَنُو سَلِمَةَ أَنْ يَنْتَقِلُوا إِلَى قُرْبِ الْمَسْجِدِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمْ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَنْتَقِلُوا قُرْبَ الْمَسْجِدِ ، قَالُوا: نَعَمْ، يَا “رَسُولَ اللهِ قَدْ أَرَدْنَا ذَلِكَ، فَقَالَ: يَا بَنِي سَلِِمَةَ دِيَارَكُمْ تُكْتَبْ آثَارُكُمْ، دِيَارَكُمْ تُكْتَبْ آثَارُكُمْ”. [صحيح مسلم: 665]
’’مسجد نبوی کے ارد گرد کی جگہیں خالی ہوئیں تو بنو سلمہ کے لوگوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب منتقل ہو جائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر مایا: مجھے خبر پہنچی ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونا چاہتے ہو۔ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! ہم یہی چاہتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’بنو سلمہ! اپنے گھروں میں رہو، تمھارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں، پھر فرمایا: اپنے گھروں ہی میں رہو، تمھارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں‘‘۔
اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ بنو سلمہ کے لوگ مسجد کے قریب آنا چاہتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دور سے آتے ہو اس وجہ سے تمھارے قدم شمار ہوتے ہیں۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا کہ اجر کی امید رکھ کہ دور سے آیا کرو، پھر وہ قریب آنے سے باز آگئے تھے۔
آج ہم ترقی کے دور میں ہیں سواریاں میسر ہیں، ایک سے زیادہ افراد ہیں تو مل جل کے جا بھی سکتے ہیں، حالات ان شاءاللہ اس علاقے میں بہتر ہی ہونگے، ویسے بھی جب ایک سے دو ہوں تو حوصلہ بڑھ جاتا ہے، اپنے آپ کو مجتمع کرکے اپنے آپ کو اس مسجد میں لے جائیں اس مسجد کی آبادی کا سبب بنیں، جب آپ جائیں گے تو قرب و جوار والوں کو بھی احساس ہوگا، کبھی کبھار ان کو بھی سمجھائیں کہ مسجد کس کے لیے بنائی گئی ہے، تو یہ زیادہ اولی اور بہتر ہے، ہا البتہ اگر زیادہ فاصلہ ہے تو پھر کبھی کبھار کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جگہ مختص کرکے نماز پڑھ لیں، اس کو عادت نہ بنائیں، اس مسجد کی آبادکاری کا سبب بنیں، آپ کی وجہ سے ان شاءاللہ لوگ بھی آئیں گے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سوال: میرا دوست جوکہ سوسائٹی میں رہائش پذیر ہے، اس سوسائٹی کی مسجد ان کے گھر سے تقریباً دو کلو میٹر دور ہے، جہاں سے اذان کی آواز بھی نہیں آتی، لیکن سوسائٹی کی دیوار کے باہر سے قریبی مساجد سے آواز آتی ہے، لیکن ان تک جانے کا رستہ دو کلو میٹر سے بھی زیادہ طویل ہے۔ تو کیا وہ گھر میں جماعت کرا سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیا اذان و اقامت کے ساتھ یا اس کے بغیر کروائیں گے؟
جواب: جہاں کتاب و سنت کی مسجد ہے، وہاں کتاب و سنت کے مطابق نماز ادا کی جاتی ہے، جس طرح ممکن ہو، پہنچنے کی کوشش کریں، خواہ دو نمازیں ہوں، تین نمازیں ہوں، یہی اولی ہے، آج کل اللہ تعالیٰ نے سواریاں دے رکھی ہیں، بس ٹائیم کو مینج کرلیں، اگر یہ ممکن نہیں ہے تو نماز تو اس پڑھنی ہی ہے، تو گھر میں بھی نماز ہو جائے گی، اذان و اقامت کے ساتھ ہو تو بھی ٹھیک ہے، بغیر اذان و اقامت کے بھی ٹھیک ہے، کیونکہ اذان و اقامت سنت کے درجے میں ہے، فرض کے درجے میں نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ علماء کرام کو سیکھاتے ہیں کہ یہ باتیں علماء کرام کو کہاں معلوم ہیں، جب بھی کسی جگہ مکان لینا چاہیں تو لوکیش دیکھیں تو سوال یہ ہے کہ جب پلاٹ لیا تھا تو اس وقت نہیں دیکھا تھا کہ مسجد دو کلو میٹر دور ہے، ایک مسلمان کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس کا گھر مسجد کے قریب ہو، تو اس گھر کو تبدیل کرنا کونسی بڑی بات ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
سائل: شیخ محترم، اگر معاشی لحاظ سے فی الحال ایسا ممکن نہ ہو تو؟ کسی بھی سوسائٹی کی سینٹرل آبادی اور کناروں کی زمینوں کی قیمتوں میں فرق ہوتا ہے۔
جواب: جب کوئی انسان اچھا کام کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو سوسائٹی کے درمیان جگہ دی ہے تو وہ مسجد کے قریب بھی عطا کرنے پر قادر ہے، بس اس کے لیے تھوڑی مشکل برداشت کرنا پڑے تو کرلے، دنیا میں لغزری کاموں کے لیے قرضہ لیا جاتا ہے، تو اس کام کے لیے تھوڑی بہت مشقت اٹھالیں۔ باقی دو کلو میٹر کوئی سفر نہیں ہے، کچھ نمازوں کے لیے گاڑی پر جائیں، کچھ نمازوں کے لیے پیدل چلے جائیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ