سوال (1267)
مسجد عائشہ سے احرام باندھنا شرعا کیسا ہے؟
جواب
اگرچہ بعض علماء اس کے قائل ہیں، لیکن سلفی علماء اس کی آسانی سے اجازت نہیں دیتے ہیں، بہتر یہ ہے کہ مقررہ میقات پر چلے جائیں، طائف پر جائیں تو سیل کبیر ہے، وہاں سے احرام باندھے یہ بہتر ہے، کچھ علماء اجازت دیتے ہیں کہ مسجد عائشہ اقرب الی الحل ہے، لیکن یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ خاص ہے۔ صرف وہ عورت جس کی یہ کیفیت ہو وہ جا سکتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اس میں سلف کا اختلاف ہے، صحابہ میں سے ابن عباس، ابن زبیر اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں، ابن عباس رضی اللہ عنہ والی سند میں ضعف ہے، ابن الزبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے۔
اماں جی عائشہ سے دوسرا عمل یہ ہے کہ جب وہ مکہ آتیں اور دوبارہ عمرہ کا ارادہ ہوتا تو میقات سے احرام باندھتیں [سندہ صحیح]
احسن یہ ہے کہ میقات پر جایا جائے، جواز ہے کہ مسجد عائشہ سے باندھ لیا جائے، ام الدرداء رضی اللہ عنہا سے بھی ثابت ہے، سیدنا انس بن مالک والی سند ابھی پیش نظر ہے۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
سوال: دوسرے عمرے کے لیے مسجد عائشہ یا جعرانہ سے احرام باندھ سکتے ہیں؟
جواب: اگر عمرہ کرلیا ہے، دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، اس میں اتنی سختی نہیں ہے، ہمارے نزدیک اس میں راجح یہ ہے کہ آپ کو شرعی میقات پر عمرے کے لیے جانا چاہیے، مکہ سے طائف جاتے ہیں، وہاں سے سیل کبیر سے احرام باندھ کر آتے ہیں، یہی احوط و اولی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سوال: اگر ہم لاہور سے عمرہ کرنے جائیں اور نیت ہو کہ ہم سعودیہ جا کر آٹھ گھنٹے بعد عمرہ کریں گے تو کیا وہاں پہنچ کر مسجد عائشہ سے احرام باندھیں سکتے ہیں یا اپنے ہوٹل سے احرام پہن سکتے ہیں؟
جواب: اگر ایسا کیا ہے تو دم واجب ہوگا، اس لیے یہاں سے احرام باندھ کر جائیں، وہاں حالت احرام میں آرام کرے، بعد میں عمرہ لرلے۔ باقی دلائل کا تقاضا ہے کہ میقات سے احرام سے باندھے گا، اپنی مرضی سے نہیں باندھے گا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: کیا اس حدیث کی رو سے ہم ہوٹل سے احرام نہیں باندھ سکتے؟
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: «وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلِ، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ، هُنَّ لَهُنَّ، وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ، مِمَّنْ أَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَمَنْ كَانَ دُونَهُنَّ فَمِنْ حَيْثُ أَنْشَأَ، حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ مِنْ مَكَّةَ» (صحیح بخاری، حدیث: 1524، صحیح مسلم، حدیث: 1181)
نبی ﷺ نے مدینہ والوں کے لیے “ذوالحلیفہ”، شام والوں کے لیے “جحفہ”، نجد والوں کے لیے “قرن المنازل” اور یمن والوں کے لیے “یلملم” میقات مقرر فرمائے۔
یہ مقامات ان ہی کے لیے اور ان کے لیے بھی ہیں جو ان راستوں سے گزر کر حج یا عمرہ کا ارادہ کریں۔
اور جو ان سے اندر ہوں وہ اپنی جگہ سے احرام باندھیں، یہاں تک کہ اہلِ مکہ مکہ ہی سے
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے میں رہتے ہوئے سیدہ عائشہ کو تنعیم بھیجا تھا، ساتھ میں ان کے پاس خاص عذر بھی تھا، اگر ایسا ہوتا تو سیدہ خیمے سے احرام باندھتی، صحابہ کرام اس پر کو عمل کرتے، مسجد عائشہ رضی اللہ عنھا سے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے احرام باندھ لیا تھا، لیکن سیدہ کے بھائی نے نہیں باندھتا تھا، یہ حدیث ہمارے نزدیک حج والوں کے لیے ہے، ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ میقات پر جائے، اگر اس نے کرلیا ہے تو اعادۃ نہیں ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ موقف راجح نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: اگر ہم بغیر احرام کے گزریں اور پھر واپس میقات پر آجائیں تو پھر تو دم نہیں ہے؟
جواب: پھر دم نہیں ہوگا، یہ غیر ضروری عمل ہے، شریعت نے جس طرح بتایا ہے، اس پر عمل کریں، اشکال ہی پیدا نہیں ہوگا، احرام کے ساتھ وہاں نیند کرنے کے بعد عمرہ کرلیں، لیکن بے مقصد لیٹ نہ کریں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ




