سوال (367)

مسجد میں ایک صاحب مالی تعاون مسجد کے لیے کر کے گئے ہیں ، کیا اس رقم میں سے کسی مجبور کی انفرادی مدد کی جاسکتی ہے ؟

جواب

مسجد کے لیے آیا ہوا فنڈ مسجد کی ہی کسی مد میں استعمال کیاجائے ۔ اور اگر مسجد کا فنڈ وافر ہے اور فوری طور پر اس کا کوئی مصرف نہیں تو منتظمین مشورہ کرکے کسی حقیقی مستحق کی مناسب مالی مدد کردیں۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

اس زمانے میں یہ سوال بار بار اٹھتا ہے کہ مسجد میں زکاۃ کا پیسہ لگانا چاہیے یا نہیں ، ہم کہتے ہیں کہ مسجد میں زکاۃ کا پیسہ نہیں لگانا چاہیے ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکابر و اصاغر کے فتوے تحریرا ، تقریراً اور ویڈیوز کی شکل میں آجاتے ہیں کہ جی ہا ں لگادیں ، اس کی بھی توجیہات کی جاتی ہیں ، اس کی یہ بھی توجیہ ہوتی ہے کہ بیت المال سے سارے کام ہوتے تھے ، گویا کہ آج ہر مدرسہ ، مسجد اور ہر ادارہ بیت المال کی طرح چلتا ہے ، اور تصرف کا اختیار رکھتا ہے ، اگر واقعتاً عملی طور پر ایسے ہو رہا ہے کہ جو ذمیدار ہوتے ہیں ، بیت المال کے جو احتیارات ہیں۔ تو اس اعتبار سے اپنے اختیارات اور تصرفات کو لے کے چلتے ہیں ، اگر ایسا ہی ہے تو پھر گنجائش دینی چاہیے ، وہ دیکھ لے اگر اس کے پاس زکاۃ آئی ہے ۔تو کہاں کہاں لگانی چاہیے ، مسجد کا پیسہ آیا ہے کہ وہ بھی دیکھ لے کہ کہاں کہاں وہ اس کو لگائے گا ، کیونکہ وہ اپنی ذات پر تو نہیں لگا رہا ہے ، اس کو جو امانت دی گئی تھی ، اگر وہ بیت المال کی طرح تصرفات رکھتا ہے ، یہاں پر بھی اس کو اجازت ہونی چاہیے ، اپنے محل پر چیز پہنچ گئی تو اس کا حکم بدل جائے گا پھر وہ لگا سکتا ہے اور دے سکتا ہے ، میں سمجھتا ہوں یہ گنجائش دینی چاہیے ، ناچاہتے ہوئے بھی یہ گنجائشیں نکلی ہوئی ہیں ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ