سوال
کیا حائضہ عورت مسجد کے اوپر والے حصے میں تدریس کا کام کر سکتی ہے؟جہاں اعتکاف، نماز اور جمعہ بھی پڑھا جاتا ہے۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
شریعتِ اسلامیہ میں حائضہ عورت کا مسجد میں داخل ہونا ممنوع ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
“لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ”. [سنن أبی داؤد: 232]
’’بے شک میں مسجد کو حائضہ عورت اور کسی جنبی کے لیے حلال نہیں کرتا‘‘۔
لہٰذا بنا کسی مجبوری حائضہ عورت کا مسجد میں جانا اور مسجد میں ٹھہرنا جائز نہیں، خواہ وہ تدریس کے مقصد سے ہی کیوں نہ ہو۔
اگر کسی عمارت کی بالائی منزل کو مسجد کا حصہ قرار دیا جائے، جہاں نماز، اعتکاف، اور دیگر عبادات انجام دی جاتی ہوں، تو اس کا شرعی حکم بھی مسجد جیسا ہی ہوگا۔ صورتِ مسؤلہ میں چونکہ اوپر والے حصے میں جمعہ کی نماز اور اعتکاف ہوتا ہے، اس لیے یہ بھی مسجد کا حصہ ہے، اور وہاں حائضہ عورت کا داخلہ جائز نہیں ہوگا۔
متبادل حل:
1۔ اگر اوپر والے حصے کو مستقل طور پر مدرسہ قرار دے دیا جائے اور اسے مسجد کے استعمال سے الگ رکھا جائے، تو وہاں تدریس کی جاسکتی ہے، اور حائضہ استانی وہاں جا سکتی ہے۔
2۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو، تو حائضہ استانی کے لیے متبادل انتظام کیا جائے یا ان ایام میں تدریس سے رخصت کرلی جائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ