سوال (2162)

مسجد کی تعمیر کے لیے اگر کوئی شخص امام صاحب کو کچھ پیسے دے دیں، تعمیر میں ایک ماہ باقی ہو تو کیا امام صاحب اس رقم کو اپنے کام میں لگا سکتا ہے، بعد میں اپنےطرف سے پیسے مسجد میں لگا دے؟

جواب

امانت کو اپنے مصرف میں نہیں لایا جا سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

یہ پیسے امام صاحب کے پاس بطور امانت ہیں۔ اس میں سے خود خرچ نہیں کر سکتے خواہ نیت لوٹانے ہی کی کیوں نہ ہو، البتہ اگر مسجد انتظامیہ کسی خاص صورت کے پیش نظر امام مسجد کو تصرف کی اجازت دے، تو بطور قرض اس صورت میں ایسا کر سکتے ہیں، ورنہ یہ جائز نہیں ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ

وہ پیسے امانت ہیں، ان کو ذاتی کام میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔

فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ

اہل مسجد نے امام صاحب کو امین سمجھا ہے، تو انہیں امین بن کر دکھائیں، بصورت دیگر عذر معقول وشدید ہے تو مسجد کی انتظامیہ سے درخواست کریں، اگر وہ اپنی طرف سے تعاون نہیں کرتے اور بطور قرض بھی رقم نہیں دیتے تو وہ رقم متفقہ طور پر رضامندی کے ساتھ بطور قرض استعمال کرنے دیں تو کوئی حرج نہیں ہو گا۔ إن شاءالله الرحمن
رہا مسئلہ امانت کا تو امانت میں خیانت تب قرار پائے گی جب وہ انتظامیہ کے علم میں لائے بغیر خرچ کر لے اور پھر انہیں ادا نہیں کرے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

سوال: اگر ہمارے پاس مسجد کے پیسے جمع ہیں، کیا ہم وہ ضرورت کے تحت استعمال کر سکتے ہیں، پھر اگر مسجد کو ضرورت ہو جب بھی تو ہم اسکو دے دیں۔

جواب: ویسے تو یہ امانت کو امانت ہی رکھنا چاہیے، اسے استعمال کرنے کا دروازہ نہ کھولا جائے، کیونکہ یہی سے پھر معاملات بگڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ البتہ اگر کوئی انتہائی معاملہ اس طرح کا سر پر آ گیا ہے، کوئی حادثہ، کوئی نازلہ، تو پھر یہ کہ جو پوری اندرونی باڈی ہے، اندرونی باڈی بنی ہوئی ہے، تو وہ سارے، یہ دو چار جو ان میں سے قدآور ہوں، جو زیادہ ذمہ دار ہوں، ان کے علم میں لائیں، ان کو بتا کر، ان کی اجازت سے۔ چاہے آپ خود ہی بڑے ہوں، لیکن پھر بھی، آپ کے پاس کم از کم دو گواہ ہوں کہ میں نے یہ چیز امانتاً استعمال کی ہے، اور میں اس تاریخ کو لوٹا دوں گا، تو پھر گنجائش موجود ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: اگر کسی کو اس میں سے ادھار بھی دے دیں کسی انتظامیہ کے کہنے پر تو اگر وہ لیٹ ہو جائے پیسے دینے میں تو وہ جس کے پاس پیسے جمع ہیں، اس نے رکھنے ہیں یا جس نے بولا ہے کہ ادھار دے دو اس نے رکھنے ہیں۔

جواب: سوال واضع نہیں ہے، شاید یہ ہے کہ لیٹ کا ذمے دار کون ہے، جب انتظامیہ نے دیا ہے، وہ ذمے دار ہیں، ایک نہیں ہے، کوئی نہ کوئی لے لے گا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: محترم شیوخ کرام مجھے بھی اس معاملے میں وضاحت درکار ہے، مجھے بھی مسجد کا خزانچی مقرر کیا گیا ہے، لیکن میں کبھی پیسے الگ نہیں رکھتا، بس آمدن اور خرچ کا الگ الگ اندراج کر دیا جاتا، البتہ جب بھی حساب کتاب کیا جاتا تو اکثر خرچ ہی زیادہ ہوتا ہے، لیکن کمی بیشی امکان تو بہرحال موجود ہے۔
جواب: الگ رکھنا یا نہ رکھنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، بس مسئلہ اندراج کا ہے، جو انتظامیہ کے رکن ہیں، ان کے علم میں لانا لازمی ہے، اندراج ہو رہا ہے، ان کے علم میں ہے تو ان شاءاللہ کفایت کر جائے گا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ