سوال
ہماری مسجد کی دوکانیں ہیں اورا نکی چھت پر امام صاحب کی رہائش بنی ہوئی ہے، اب مسجد میں جمعہ اور عیدین کےموقع پر جگہ کی قلت ہوجاتی ہے۔ ہم دوکانیں مسجد میں شامل کرناچاہتے ہیں اور اوپر دوبارہ رہائش بنانا چاہتے ہیں۔
امام صاحب کو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسجد کی چھت پر رہائش بنانا درست نہیں ۔ جبکہ مسجد کے قریب جگہ بھی نہیں مل رہی اور خریدنے کےپیسے بھی نہیں ہیں۔
کیا اس صورت میں مسجد کی چھت پر رہائش بنا سکتے ہیں؟ برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں۔
سائل:انتظامیہ جامع مسجد محمدی اہل حدیث بلوکی گاؤں تحصیل پتوکی ضلع قصور
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
مساجد کا بنیادی مقصد اللہ کا ذکر اور عبادتِ الہی ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
﴿فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ * رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ﴾[النور: 36، 37]
’ان گھروں میں جن کے بلند کرنے، اور جن میں اپنے ذکر کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
«إِنَّ هَذِهِ الْمَسَاجِدَ … إِنَّمَا هِيَ لِذِكْرِ اللهِ عز وجل وَالصَّلَاةِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ». [صحيح مسلم :285]
’یہ مساجد اللہ کے ذکر، نماز اور تلاوتِ قرآن کے لیے ہیں‘۔
البتہ اس کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ جنہوں نے خود کو عبادت الہی اور خدمتِ دین کے لیے وقف کیا ہو، ان کی ضروریات زندگی مثلا کھانا ، رہائش، علاج معالجہ کے لیے مسجد کو استعمال کرنا جائز ہے، اور عہدِ نبوی سے اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ اصحابِ صفہ مسجد میں قیام کیا کرتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’نماز‘ اور ’مساجد‘ سے متعلق احادیث میں باقاعدہ اس پر ابواب قائم کیے ہیں، مثلا امام صاحب فرماتے ہیں:
«بَابُ نَوْمِ الْمَرْأَةِ فِي الْمَسْجِدِ». [صحيح البخاري 1/ 95]
’عورت کے مسجد میں سونے کا باب‘۔
پھر اس کے تحت ایک لونڈی کا ذکر کیا ہے، جس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرلیا تھا، پھر عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ذکر کیا ہے:
«كَانَ لَهَا خِبَاءٌ فِي الْمَسْجِدِ أَوْ حِفْشٌ». [صحيح البخاري 1/ 95 برقم:439]
’ اس کا خیمہ یا جھونپڑا مسجد میں تھا‘۔
علامہ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيه أن من لم يكن له مسكن ولا مبيت أنه يباح له المبيت في المسجد واصطناع الخيمة وشبهها للمسكن امرأة كانت أو رجلاً». [الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري 4/ 99]
’اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جس مرد یا عورت کے لیے رہنے کی جگہ نہ ہو، وہ مسجد میں نہ صرف رہ سکتے ہیں بلکہ رہائش کے لیے باقاعدہ خیمہ وغیرہ بھی لگا سکتے ہیں‘۔
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک اور باب قائم کیا ہے:
«بَابُ الْخَدَمِ لِلْمَسْجِدِ». [صحيح البخاري 1/ 99]
’مسجد کے لیے خدام رکھنا‘۔
پھر اس میں وہ مشہور حدیث ذکر کی ہے، جس میں ایک خاتون مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی اور پھر فوت ہوگئی، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بالخصوص نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں:
«وَمُنَاسَبَةُ ذَلِكَ الحَدِيث الْبَابِ مِنْ جِهَةِ صِحَّةِ تَبَرُّعِ تِلْكَ الْمَرْأَةِ بِإِقَامَةِ نَفْسِهَا لِخِدْمَةِ الْمَسْجِدِ لِتَقْرِيرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لَهَا عَلَى ذَلِكَ». [فتح الباري 1/ 554]
’باب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ عورت کا خود کو مسجد کی خدمت کی غرض سے وقف کردینا جائز ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو اس عمل سے منع نہیں کیا تھا‘۔
لہذا امام، خطیب، خادم وغیرہ مسجد کے خادمین ومتعلقین کی مساجد میں رہائش بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بلکہ مسجد کا یہ عملہ اس کے نظام کو چلانے کے لیے ناگزیر ہے، اس لیے مسجد کی تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے خادمین و متعلقین کی رہائشوں کا بھی بندوبست کرنا چاہیے۔
لہذا جو لوگ بھی مسجد کے لیے جگہ وقف کریں، انہیں اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے کہ مسجد کےساتھ ساتھ رہائش وغیرہ دیگر ضروریات کے لیے بھی جگہ کا بندوبست کریں۔ لیکن اگر الگ سے جگہ خاص نہ بھی کی گئی ہو، تو مسجد کی چھت یا اس سے اوپر منزلوں پر رہائش بنانے میں کوئی حرج نہیں۔
کیونکہ ایک تو جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ مسجد میں رہائش بنانا جائز ہے، دوسرا مسجد کی ایک یا دو یا جتنی بھی منزلیں نمازیوں کے لیے خاص ہیں، اس کے علاوہ دیگر پوشنز کو رہائش وغیرہ دیگر ضروریات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو جگہ مسجد کے لیے وقف ہو جائے وہ زمین کی تہہ سے لیکر آسمان کی بلندیوں تک مسجد ہی کی جگہ ہو گی، یہ درست نہیں۔ بلکہ جو مسجد کے لیے وقف ہو، وہی مسجد شمار ہوگی، بقیہ پورشنز یا منزلیں دیگر ضروریات کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔
صورتِ مسؤلہ میں تو ویسے بھی واش رومز کے اوپر امام کی جگہ پہلے سے موجود تھی، اب مسجد کی ضرورت کے تحت نیچے والی منزل اگر مسجد میں شامل کی جارہی ہے، تو اس سے اوپر رہائش والی جگہ کا مسجد کے لیے وقف کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس پر ویسے ہی رہائش بنادی جائے، جیسا کہ پہلے موجود تھی۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ