سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ حافظ صاحب

میرے بڑے بھائی نے ایک پلاٹ خریدا اور اس پر مسجد بنانے کا ارادہ کر لیا۔ چند ہفتے پہلے کچھ لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا کہ آپ زمین وقف کریں ہم مسجد بنانے میں تعاون کریں گے۔ اللّٰہ پاک کے کرم سے کچھ دن پہلے اس پلاٹ پر مسجد بنانے کا کام بھی شروع کر دیا گیا۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس جگہ یہ مسجد بنانے کا کام شروع کیا گیا وہاں اگلے 12،15 سال تک خاص آبادی نہیں ہو گی اور نہ ہی مسجد کا زیادہ استعمال ہو سکے گا۔

لہذا اسی دوران آبادی کے درمیان میں مسجد بنانے کا خیال آگیا۔ اب کافی سارے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ پہلے والی مسجد کا پلاٹ بیچ کر اس آبادی کے درمیان مسجد تعمیر کی جائے،  جبکہ بھائی نے پہلے ہی وہ پلاٹ مسجد کے نام وقف کر دیا بلکہ تعمیرات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔

بھائی کا خیال ہے کہ اب وہ والا پلاٹ بیچنا جائز نہیں کیونکہ میں نے نیت کر لی ہے کہ اس جگہ مسجد ہی بنے گی۔

میرا یہ سوال ہے کہ جس جگہ پر مسجد کی نیت کر لی گئی ہے، کیا اسی جگہ مسجد بنانا لازم ہے یا وہ جگہ بیچ کر ان پیسوں سے دوسری جگہ مسجد تعمیر کر سکتے ہیں؟

برائے مہربانی شرعی طور پر حکم واضح فرما دیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اگر اس علاقے کے ذی شعور اور انتظامیہ کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گاؤں اور آبادی کے درمیان میں مسجد بنانا ہر اعتبار سے بہتر ہے تو پھر پہلے والی جگہ کو بیچ کر گاؤں کے درمیان میں جگہ خرید کر (یا پہلے سے موجود جگہ پر)  مسجد بنانے میں کوئی قباحت اور حرج والی بات نہیں ہے۔

جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفہ کی ایک پرانی مسجد کو دوسری جگہ منتقل کر  کے پہلی مسجد کی جگہ کھجور منڈی بنا دی تھی۔کیونکہ پہلے بیت المال محفوظ جگہ پر نہیں تھا ،اس کی حفاظت مقصود تھی، تو اسے دوسری مسجد کے قبلہ کی طرف بنایا تاکہ آنے جانے والے نمازی اس پر نظر رکھیں۔[مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:216/31]

لہذا مذکورہ مسجد کو منتقل کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے سامان کو دوسری مسجد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔نیز اس کی زمین فروخت کرکے اس کی قیمت بھی دوسری مسجد میں صرف کی جا سکتی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ