سوال (2491)
کیا مسجد پر صدقہ لگ سکتا ہے؟
جواب
جو بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیں اسےنفلی صدقہ کہتے ہیں، اگر نفلی صدقہ ہے تو آپ لگا سکتے ہیں، باقی زکاۃ کے بارے میں اختلاف ہے، زکاۃ کے مصارف میں اگر “فی سبیل الله” کے عموم کو دیکھا جاتا ہے تو گنجائش نکل آتی ہے، یا بیت المال کے معاملے کو دیکھا جاتا ہے تب بھی گنجائش نکل آتی ہے، باقی نفلی صدقہ میں آپ آزاد ہیں، جہاں چاہیں خرچ کریں،وہ مطلق ہے، باقی فرضی صدقہ یعنی زکاۃ صرف آٹھ مصارف میں خرچ کرناضروی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سوال: صدقہ و خیرات مساجد کو دیا جا سکتا ہے، انما الصدقات والی ایت میں جو مصارف ذکر کیے ہیں ان میں مساجد کا ذکر نہیں ہے رہنمائی فرمائیں دیں۔
جواب: زکاۃ میں مصارف میں جو “فی سبیل للہ ” کا مد ہے، وہاں سے اہل علم نے مسجد کا مسئلہ بھی اخذ کیا ہے، اس لیے بندے کے مسجد کی طرف جانے جو فی سبیل للہ کہا گیا ہے، پھر مسجد خود بخود آگئی ہے، اگرچہ راجح قول یہ ہے کہ اس سے مراد جہاد اور اس کے متعلقات ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: اگر وہ صدقہ وخیرات مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو دے دیں تو کوئی حرج تو نہیں کچھ طلبہ مساکین اور یتیم بھی ہوتے ہیں۔
جواب: مسافر طلباء جو دین کا علم حاصل کرنے آئے ہیں، ان پر خرچ ہو سکتا ہے، وقف جو اساتذہ ہیں، ان کے وظائف بھی دیے جا سکتے ہیں، ابن الجوزی رحمہ اللہ نے زاد المسیر میں لکھا ہے کہ ” للفقراء الذین احصرو فی سبیل اللہ” سے مراد اصحاب صفہ ہیں، وہ طالب علم بھی تھے، عاملین زکاۃ بھی تھے، مجاہد بھی تھے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ




