سوال (3973)
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ “[سنن الترمذي: 1089]
کیا اس حدیث کے مطابق مسجد میں نکاح کرنا واجب ہے؟ جیسا کہ ڈاکٹر اسرار کہہ رہے ہیں۔
جواب
یہ روایت ثابت نہیں، ویسے بھی اگر اس کے آدھے الفاظ سے مسجد میں نکاح واجب ہوتا ہے تو اگلے الفاظ میں دف کا بھی حکم ہے تو اس سے دُف مارنا بھی واجب ہو گیا؟
تیسری بات یہ ہے کہ مسجد میں نکاح کا قصد کرنا غیر مشروع ہے۔ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں نکاح کی غرض سے مسجد کا قصد کیا جاتا تھا، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں۔ بلکہ اس میں یہود ونصاری کی مشابہت ہے کہ وہ بھی اپنی عبادت گاہوں میں ہی یہ معاملہ کرتے ہیں۔ اسی لیے کئی کبار اہلِ علم نے قصدا مسجد میں نکاح کے لیے جانے کو بدعات میں سے شمار کیا ہے۔ ہاں اگر ویسے موقع بن جائے تو وہیں کیا جا سکتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک صحابی کا مسجد میں بیٹھے ہی نکاح پڑھا دیا تھا۔
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فی زمانہ مسجد میں نکاح کرنا مستحسن عمل ہے، لیکن اس کو فرض یا واجب قرار دینا محل نظر ہے، ترغیب دینی چاہیے، اگرچہ جامع الترمذی کی اس روایت پر بعض علماء نے جرح کی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ