سوال (2283)
مسجد کے ایک امام نے غلط بیانی کر کے محض اپنی سہولت کے لیے اپنی مسجد میں ہی حکومت سے سرکاری پرائمری اسکول منظور کروا دیا یہ کہہ کر کہ ہمارے محلے میں کوئی اسکول نہیں ہے حالانکہ محلے میں ایک پرائمری سرکاری اسکول موجود ہے۔ پھر حکومت نے اسے مسجد میں سرکاری اسکول چلانے کی اجازت دے دی اس شرط پر کہ ہم صرف جو استاد ہیں ان کی تنخواہ منظور کریں گے باقی بجلی اور پانی وغیرہ کا بل آپ خود بھریں گے تو اب مسجد میں وہ اسکول چل رہا ہے جبکہ پانی اور بجلی کا خرچہ یہ سب مسجد کے بیت المال سے ادا کیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح مسجد میں سرکاری اسکول چلانے والا معاملہ شرعاً درست ہے؟ اور کیا اس طرح جھوٹ بول کر اپنا مطالبہ منظور کروانے والے ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب
مسئلے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کیا جائے ، اگر امام مسجد نے غلط بیانی کی ہے تو یہ ایک دو دن کا معاملہ نہیں ہے، نمازیوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیے تھے ، انتظامیہ ایکشن لے وہ کیا چاہتی ہے، پنچائت بیٹھا کر مسئلہ حل کرنا چاہیے، یہ بھی یاد رہے کہ مسجد میں کاروبار الگ چیز ہے ، اسکول کھولنا الگ چیز ہے، اکابر و اصاغر منصف بیٹھا کر فیصلہ کریں، جہاں تک نماز کا مسئلہ ہے، تو ہر مسلمان کے پیچھے ہوجاتی ہے، لہذا اس امام کی پیچھے پہلے بھی ہوتی تھی، اب بھی ہوجائے گی۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ