سوال (3607)

مسجد میں انگلیوں کے کڑاکے نکالنا کیسا ہے؟

جواب

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الْمَسْجِدِ فَلَا يُشَبِّكَنَّ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، فَإِنَّ التَّشْبِيكَ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ مَا كَانَ فِي صَلَاةٍ مَا كَانَ فِي الْمَسْجِدِ.” [مسند أحمد: 18653، صحیح الجامع: 716]

ترجمہ: “جب تم میں سے کوئی مسجد میں ہو تو وہ اپنی انگلیاں نہ پھنسائے (کڑاکے نہ نکالے)، کیونکہ یہ عمل شیطان کی طرف سے ہے، اور جب تک کوئی مسجد میں ہوتا ہے، وہ نماز کی حالت میں سمجھا جاتا ہے۔”

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

شیخ مکرم!
تشبيك الأصابع اور فرقعة الأصابع میں فرق نہیں؟

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

تشبيك بين الأصابع کے ناجائز ہونے کا تعلق فرض نماز پڑھنے تک ہے، نماز کے بعد اگر کوئی مسجد میں انگلیوں میں انگلیاں ڈالتا ہے تو یہ جائز ہے، اس کے جواز کے لیے صحیح البخاری کی تبویب اور اس کے تحت احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
مزید تفصیل کتب شروحات حدیثیہ میں دیکھیں۔
کڑاکے اگر تو الگ، الگ انگلی کے نکالے جاتے ہیں تو کوئی حرج نہیں اور اگر تشبیک کی صورت میں نکالے جاتے ہیں تو تب اجتناب اولی ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

یہ کڑاکے وغیرہ تشبیک کا پیش خیمہ ہے، اس لیے اجتناب اولی ہے، بالخصوص نماز میں اجتناب کرنا چاہیے، شیخ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل میں لکھا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کے ساتھ ایک شخص نماز میں کھڑا ہوا تھا، اس نے کڑاکے نکالے تھے، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے اس شخص کو کہا تھا کہ “لا أم لك” آپ کی ماں نہ رہے۔ کیا کر رہا ہے۔
بس فعل لغو ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، باقی جو نماز کا حکم ہے، وہ نماز کے علاؤہ نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ