سوال
ایک مسجد تعمیر ہوئی ہے، تعمیر کے وقت اہتمام کے ساتھ قبلہ کے تعین کی کوشش کی گئی، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ قبلہ کی سمت سے تھوڑا فرق ہے۔ کیا شریعت میں اس حوالے سے گنجائش موجود ہے اور یہ گنجائش کتنے ڈگری تک ہو سکتی ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
نماز کی صحت کے لیے قبلہ رخ ہونا ضروری ہے، البتہ قریب اور دور والوں کے لحاظ سے اس میں درج ذیل تفصیل ہے:
- عین قبلہ:
یعنی بالکل بیت اللہ کی سیدھی سمت، یہ ان لوگوں پر لازم ہے جو بیت اللہ کے بالکل قریب ہوں، جیسے حرم کے اندر یا اس کے آس پاس والے۔ ان کے لیے عین قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری ہے۔
- جہت قبلہ:
یعنی بیت اللہ کی سمت۔ یہ ان سب کے لیے ہے جو بیت اللہ سے دور ہیں، جیسے اہلِ مدینہ، اہلِ عراق، اور دیگر ممالک۔ ان پر لازم نہیں کہ بعینہ کعبہ کی بالکل سیدھی سمت رخ کریں، بلکہ اس کی جہت میں رخ کرنا بھی کافی ہو گا۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہلِ مدینہ کو فرمایا:
“مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ”. [سنن الترمذی: 342]
‘مشرق اور مغرب کے درمیان سب کچھ قبلہ ہے’۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ دور والے مقامات میں عین قبلہ کے بجائے جہت قبلہ ہی کافی ہے۔
جس طرح مشرق اور مغرب کے درمیان پورا حصہ اہلِ مدینہ کے لیے قبلہ شمار ہوگا، اس حساب سے ہمارے علاقوں (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ) کے لیے شمال اور جنوب کے درمیان کا سارا حصہ قبلہ ہوگا۔
اس لیے قبلہ کی طرف رخ کے حوالے سے 45 ڈگری تک کی گنجائش موجود ہے، جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے۔
لہٰذا اگر کسی مسجد میں اہتمام کے باوجود سمت میں معمولی فرق (کچھ ڈگری کا انحراف) ہوگیا ہے تو کوئی حرج نہیں، وہ مسجد جہت قبلہ پر ہے تو اس میں نماز درست ہے۔ ہاں اگر قبلہ سے مکمل طور پر ہٹ کر مخالف سمت ہو تو اسکی اصلاح کرنا ضروری ہوگا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ




