مسلک محدثین کے اکابر میڈیا میں متعارف کیوں نہیں؟

رات جب ائیر فورس سے موسوم آفوش کلب کی روشنیاں اندھیرے کے مقابل شرمائی شرمائی سی دکھائی دیتی تھیں، مہمان جا چکے اور ہم کچھ لوگ باقی ماندہ صحبت یاراں سے آخری لمحے کشید کر رہے تھے، تو شائد اسی لمحے مشہور اور نیک نام صحافی عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا، آپ لوگ گاہ جن علما کی بہت تعریف کرتے ہیں،ہم نے تو کبھی ان کا نام بھی نہیں سنا ہوتا۔ عین اس لمحے میں نے غور کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ مسلک محدثین کے خالص علمی اکابر اور شیوخ کا واقعی میڈیا سے وہ تعارف نہیں ہو سکا،جیسا کہ ہونا چاہئے تھا، میری ایک تحریر کے حوالے سے انھوں نے البتہ محدث لائبریری اور عبدالرحمن مدنی صاحب کے خانوادے سے اپنی واقفیت کا بھی اظہار فرمایا۔
تب میں نے سوچا کہ ہمارے ان علما کا تعارف تو میڈیا پر ہوا، جنھوں نے تازہ ترین صورتحال کے تناظر میں ڈٹ کے اپنا اسلامی نقطہ نظر پیش کیا،مگر خالص علمی شخصیات اور رسوخ والے اکابر علما اور شیوخ الحدیث کا میڈیا سے تعارفی انٹرایکشن نہیں ہو سکا۔ مثلا جیسے مفتی تقی عثمانی صاحب یا جیسے مفتی منیب صاحب اپنے اپنے نقطہ نظر اور مکتب فکر کے حوالے سے معروف ہیں۔ ایک دور تھا کہ جب عصری صحافت کیساتھ ہمارے اکابر شیوخ کی بھی خوب رسم و راہ تھی، مناظر اسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری تو خود نامور صحافی،میگزین ایڈیٹر اور رائٹر تھے، مولانا داود غزنوی اور ان کی جماعت و مسلک کیساتھ مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کا تعلق ایسا تھا کہ اول الذکر ان کیلئے نظمیں لکھا کرتے اور ثانی الذکر ان کے جماعتی جلسوں میں بہت جراتمندانہ تقاریر کیا کرتے، علامہ احسان الہی ظہیر شہید پر معروف صحافی جاوید جمال ڈسکوی نے کتاب لکھی،جسے جنگ پبلشرز نے چھاپا، اندازہ کیجئے ،پروفیسر ساجد میر صاحب کے دادا ابراہیم میر سیالکوٹی اس پائے کے عالم تھے کہ وہ ابوالکلام آزاد کی تفسیر ترجمان القرآن پر اعلی پائے کی علمی تنقید کیا کرتے،جس کا تذکرہ خود مولانا ابوالکلام آزاد کی کتب میں آج بھی موجود ہے، علامہ اقبال کے ان پر خلوص بلکہ قابل رشک تعلقات تھے اور فیض احمد فیض کے انٹرویو کا وہ حصہ وائرل ہوچکا،جس میں انھوں شیخ ابراہیم میر سیالکوٹی کے کتب خانے کا تذکرہ کیا، پھر مولانا محمد گوندلوی ،جن کا حافظہ اور حدیث پر عبور پورے عالم اسلام میں گویا ضرب المثل تھا، مدینہ یونیورسٹی بنی تو خود عربوں نے تدریس حدیث کیلئے پورے عالم اسلام سے جس شخصیت کا انتخاب کیا،وہ ہمارے ممدوح یہی محدث گوندلوی تھے، تعلیم و تزکیہ و تصوف حقیقی کے حوالے سے لکھوی خانوادے کی ولایت و خدمات کا دائرہ وسیع تر ہے، اس پر کتب لکھی جا چکیں۔ مولانا اسمعیل سلفی رحمہ اللہ کی تحریر کا استدلال اور اسلوب ایسا بے نظیر ہے کہ جو آج بھی اہل محبت کو گھائل اور مختلف الفکر لوگوں کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دیکھا جائے تو علمی اعتبار سے موجودہ دور میں بھی ہمارے ہاں ایسی ایسی شخصیات اور ان کا علمی کام موجود ہے کہ اہل علم کے ہاں عالمی سطح پر ان کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ فیصل آباد کےمحقق و مصنف مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کی تحقیقی کتب کا تذکرہ آپ یہاں نہ بھی کریں تو کیا ان کے اعزاز کے لیے یہی بات کافی نہیں کہ اس صدی کے سب سے بڑے محدث علامہ البانی نے ان کے توجہ دلانے پر رجال کے حوالے سے بعض دفعہ اپنا موقف بدلا،ان کی اصلاح قبول کی اور نام لیکر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ان کی کتب کے اردو اسلوب میں ادبی چاشنی اور مخاطب کیلئے وقار و ہمدردی کی برکھا برستی ہے۔فیصل آباد ہی سے حدیث اور رجال حدیث پر جو دسترس شیخ الحدیث حافظ محمد شریف حفظہ اللہ کو حاصل ہے،اس کی نظیر لانے کو بھی دانتوں پسینہ آجائے۔پھر حضرو سے علامہ البانی ہی کی طرز اور اسلوب کے منفرد محقق اور ماہر اسما و رجال شیخ زبیر علی زئی کا حدیث پر کام علامہ البانی کے کام کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے، اگرچہ مشہور وہ علامہ البانی سے کم ہیں اور علامہ البانی جتنا کام وہ نہیں کر سکے۔
اس وقت اگر پاکستان میں سب سے زیادہ بخاری شریف پڑھانے کا اعزاز رکھنے والے کوئی واحد شیخ الحدیث ہیں تو وہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث عبدالعزیز علوی حفظہ اللہ ہیں۔پھر زہد و ورع، تعلیم و تدریس اور تاثیر و تبلیغ میں جو مقام حافظ مسعود عالم صاحب کو حاصل ہے،اس جیسا دوسرا کوئی کہاں سے ملے گا۔ وہ بولتے ہیں تو لفظوں سے پہلے تاثیر دل و دماغ کو چھو لیتی ہے۔ میاں چنوں جیسے چھوٹے شہر سے فتوی اور شرح حدیث میں جو نام اور مقام شارح بخاری شیخ الحدیث مفتی عبدالستار حماد صاحب نے کمایا،وہ بجائے خود ایک دل و دماغ معطر و مسخر کر لینے والی داستان ہے، ڈاکٹر عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ جیسا ذہین و فطین، قوت حافظہ سے مالا مال، حاضر جواب صاحب استدلال اور راسخ فی العلم شخص میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا، وہ خود حافظ عبدالحمید ازہر رحمہ اللہ کی حدیث پر دسترس کی تعریف کیا کرتے تھے۔ شیخ التفسیر مولانا عبدالسلام بھٹوی کا ترجمہ قرآن تو خیر اپنی نوعیت کا اردو میں منفرد ترجمہ ہے۔ یہ التزام و اہتمام ان سے پہلے کسی اردو مترجم نے نہیں کیا کہ ہر قرآنی لفظ کا اردو ترجمہ ہوگا، گرامر کی رو سے بعینہ ہوگا۔یہ بڑا کٹھن کام تھا،جس سے وہ بسلامت گزر گئے۔ ان کی علمیت،سلاست،جامعیت اور کفایت لفظی مل کے کمال کرتی ہے۔ مولانا مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ جیسا کتاب کا کیسا شائق اور حافظ کتب ہمارے اندر موجود تھا، ایسا گویا کسی پچھلی صدی کا کوئی شخص ہمارے درمیان آ بسا ہو۔کراچی میں دیکھیں تو شیخ الحدیث عبداللہ ناصر رحمانی صاحب کی علمی شان و شوکت کا اپنا ایک منفرد اسلوب ہے۔ان لہجہ کا ہموار،علم استوار اور حرف و لفظ پر بہار ہے۔ہمارے لکھنے والوں میں ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا اسحق بھٹی صاحب نے ادارہ ثقافت اسلامیہ میں بطور ریسرچ اسکالر ایسا کام کیا کہ ان کے مرتبہ شناس انھیں ذہبی دوراں قرار دیتے ہیں۔ مجیب الرحمن شامی صاحب نے انھیں اپنے رسالے زندگی کیلئے لکھنے پر قائل و مائل کیا تو ان تحاریر سے ایسی کئی صدا بہار کتابیں نکلیں کہ جن میں ادب و تاریخ،سیرت و سوانح اور فقاہت و فکاہت کی ست رنگی قوس قزح سی تن گئی ہے۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر بردبار اور با وقار لہجے میں بولتے تو علم و حکمت کے موتی رولتے، اقبالیات کے حوالے سے ان کا کتب خانہ جہاں تک میری معلومات ہیں، دنیا کا سب بڑا کتب خانہ تھا، یا ان میں سے ایک تھا۔ رانا شفیق پسروری صاحب نے قومی صحافت میں بڑی نیک نامی کمائی ہے اور آپ تقریر و تحریر دونوں میں برابر ملکہ رکھتے ہیں، آپ کئی تحقیقی کتب کے مصنف ہیں۔ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب واقعتا یوسف قلم تھے، ان کی تفسیر سعودیہ نے چھاپ کے تقریبا ہر حاجی کے گھر میں پہنچا دی۔قرآن کی ایسی رواں ادبی تفسیر یقینا ایک منفرد واقعہ ہے، پروفیسر سینیٹر ساجد میر حفظہ اللہ کا تعارف سیاسی یا تنظیمی زیادہ اشہر ہوگیا،حالانکہ ان کی علمی قابلیت اور عرب علما کے ہاں ان کا مقام و مرتبہ بھی ششدر کر دینے والا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے رکن، عیسائیت جیسی تحقیقی کتاب کے مصنف اور ائمہ حرم کے ہاں سماحتہ الوالد کے لقب سے آپ پکارے جاتے ہیں۔
یہ برجستہ چند نام ذہن میں آئے اور میں نے لکھ دئیے۔ان کے بعد کے درجے کے کئی نام بھی تحقیق و تدبر میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ لیکن بات وہی کہ آج کے ایک دینی ذہن رکھنے والے نامور صحافی رات گئے ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ ایسے جید لوگ میڈیا اور عام عوام کے ہاں اس طرح متعارف نہیں کہ لوگ ان سے استفادہ کر سکیں۔
کمی کہاں ہے؟ یہ ہمیں ضرور سوچنا چاہئے اور یہاں اعتراف کرنا چاہئے، پیغام ٹی وی کی خدمات کا کہ جو بہرحال خالص علمی شخصیات کو مروجہ میڈیا کے پلیٹ فارم سے عوام الناس کے ہاں پیش کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔جیسا کہ شیخ الحدیث یونس بٹ صاحب، حافظ عبدالحمید اظہر صاحب اور عبدالرحمن لدھیانوی صاحب سمیت کتنے اکابر اہل علم کا سرمایہ آج ویڈیو کی شکل میں محفوظ ہونے کے باعث، ان کے رخصت ہو جانے کے بعدبھی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر نشر ہو کر مرحومین کیلئے صدقہ جاریہ کا سبب بن رہا ہے۔

#یوسف_سراج

یہ بھی پڑھیں: خلافتِ عثمان، صحابہ کرام کی نظر میں