سوال (657)

کیا مصنوعی بال(وگ) لگوانے کے بارہ میں کوئیت تحریری فتوی موجود ہے ؟

جواب

میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لئے اس انداز میں بن سنور کر رہنا جو باہم پسندیدگی اور تعلقات کی استواری کا ذریعہ ہو مطلوب و مستحسن ہے۔ ہاں یہ بات ضروری ہے کہ یہ سب کچھ شرعی محرمات کا ارتکاب کئے بغیر اسلامی حدود و قیود کے اندر رہ کر ہو۔ مصنوعی بالوں کا استعال غیر مسلم عورتوں کی ایجاد ہے اس کا استعمال اور حصول زینت اگرچہ خاوند کے لئے ہی ہو کافر عورتوں سے مشابہت ہے اور ایک مسلمان عورت کا اسے پہننا اور اس کے ساتھ مزین ہونا، اگرچہ اپنے خاوند کے لئے ہی کیوں نہ ہو، کافر عورتوں کے ساتھ مشابہت کے مترادف ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی مشابہت سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا :

من تشبه بقوم فهو منهم [رواه أبوداؤد 4031۔ وأحمد 50/2، 92 ]

”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ ان میں سے ہے۔ “
نیز اس لئے بھی کہ یہ بال گوندنے کے حکم میں ہے بلکہ اس سے بھی سنگین تر، جبکہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور ایسا کرنے والے پر لعنت کی ہے۔

فضیلۃ العالم عبداللہ عزام حفظہ اللہ

وگ(Wig)یعنی سرپر مصنوعی بال لگانا یا اصلی بالوں کے ساتھ ان کو ملانا شرعی طور پر درست نہیں۔(سوائے علاج کے جیسا کہ ہئیر ٹرانسپلانٹ کا طریقہ علاج ہے)امام اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مصنوعی بال لگانے والے افراد پر لعنت وارد کی ہے۔چند ایک احادیث ملاحظہ ہوں:
(1) : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عن سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ )
(بخاری کتاب اللباس باب وصل الشعر(5937) مسلم کتاب اللباس والزینۃ باب تحریم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ (119۔2124) ابو داود،کتاب التوجل باب فی صلۃ الشعر(4168) ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی الواصلہ والمستوصلہ والواشمہ والمستو شمہ(2783) نسائی کتاب الزینۃ(5264،5110)

“اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو مصنوعی بال لگانے والی اور مصنوعی بال لگوانے والی پر جسم گود کر نیل بھرنے والی اور بھروانے والی پر۔”
(2) : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

( لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ )
(بخاری کتاب اللباس باب وصل الشعر (5933) مسند احمد 2/339)

“اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو مصنوعی بال لگانے والی اور مصنوعی بال لگوانے والی پر جسم گود کر نیل بھرنے والی اور بھروانے والی پر۔”
(3) : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:

“لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا،وَمُوكِلَهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمَوْصُولَةَ وَالْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ”
(مسند ابی یعلیٰ 9/238(5350) مسنداحمد 1/448،بیہقی 7/208)

“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے،سود کھلانے والے،مصنوعی بال لگانے والی اورلگوانے والی،حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیاجائے،اس پر لعنت کی ہے۔”
(4) : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

“لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ.‏ قَالَ مُحَمَّدٌ وَالْوَاصِلاَتِ وَقَالَ عُثْمَانُ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ ثُمَّ اتَّفَقَا وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‏.‏ فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ ‏.‏ زَادَ عُثْمَانُ كَانَتْ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ ثُمَّ اتَّفَقَا فَأَتَتْهُ فَقَالَتْ بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ لَعَنْتَ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ ‏.‏ قَالَ مُحَمَّدٌ وَالْوَاصِلاَتِ وَقَالَ عُثْمَانُ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ ثُمَّ اتَّفَقَا وَالْمُتَفَلِّجَاتِ قَالَ عُثْمَانُ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ تَعَالَى ‏.‏ فَقَالَ وَمَا لِي لاَ أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى قَالَتْ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ لَوْحَىِ الْمُصْحَفِ فَمَا وَجَدْتُهُ ‏.‏ فَقَالَ وَاللَّهِ لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ ثُمَّ قَرَأَ ‏((‏ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ‏))(ابوداؤد کتاب الترجل باب فی صلۃ الشعر(4169) یہ حدیث مختلف طرق اور الفاظ کے ساتھ بخاری،مسلم،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ اور مسند احمد وغیرہ میں مروی ہے)

“اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جسم گود کر نیل بھرنے اور بھروانے والیوں پر،مصنوعی بال لگانے والیوں پر،چہرے کے بال اکھیڑنے والیوں پر،اور خوبصورتی کے لیے دانتوں میں جھریاں بنانے والیوں پر جو کہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرنے والیاں ہیں۔یہ بات قبیلہ بنو اسد کی ایک عورت کو پہنچی،اسے اُم یعقوب کہا جاتا تھا،اس نے کہا(اے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) مجھے تیرے بارے میں یہ خبر پہنچی کے کہ تو نے جسم گود کر نیل بھرنے والی اوربھروانے والی،مصنوعی بال لگانے والی،چہرے کے بال اُکھیڑنے والی اور خوبصورتی کے لیے دانتوں میں جھریاں بنانے والی عورتوں پر لعنت کی ہے جو کہ اللہ کی تخلیق بدلنے والیاں ہیں۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے، میں ان پر کیوں نہ لعنت کروں۔حالانکہ یہ کتاب اللہ میں موجود ہے۔اس عورت نے کہا،میں نے دو تختیوں کے درمیان قرآن کا نسخہ پڑھا ہے،میں نے یہ بات نہیں پائی۔فرمانے لگے:اللہ کی قسم اگر تو نے اسے (سمجھ کر) پڑھا ہوتا تو ضرور پالیتی۔پھر یہ آیت تلاوت کی:”اور جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں دیں،اسے لے لو اور جس سے منع کریں ،اس سے باز آجاؤ۔”
اس حدیث کو امام ابوداؤد نے اپنے دو استادوں محمد بن عیسیٰ اور عثمان بن ابی شیبہ سے بیان کیا ہے اور واصلات کا لفظ محمد بن عیسیٰ سے نقل کیا ہے۔
(5) : حمید بن عبدالرحمان بن عوف رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے:

“أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِى سُفْيَانَ عَامَ حَجَّ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَتَنَاوَلَ قُصَّةً مِنْ شَعَرٍ كَانَتْ فِى يَدِ حَرَسِىّ يَقُولُ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (صلى الله عليه وسلم) يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذِهِ وَيَقُولُ « إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَ هَذِهِ نِسَاؤُهُمْ”
(موطا مالک کتاب الشعر باب السنۃ فی الشعر 2/722،بخاری کتاب اللباس باب وصل الشعر(5932) مسلم کتاب اللباس والزینۃ(122۔2127) ابوداؤد کتاب الترجل باب فی صلۃ الشعر(4167)ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی کراھیۃ اتخاذ القصۃ(5260) نسائی کتاب الزینۃ باب الوصل فی الشعر(5260)

“انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس سال سنا جب انہوں نے حج کیا اور وہ منبر پر تھے۔وہ غلام کےہاتھ سے بالوں کا ایک جوڑا (وگ) لے کر کہہ رہے تھے اے مدینہ والو تمہارے علماء کہاں ہیں؟میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ ایسے جوڑے(وگ) سے منع کرتے تھے اور کہتےتھے جب بنی اسرائیل کی عورتوں نے اس طرح بنانا شروع کیا اس وقت بنی اسرائیل ہلاک ہوگئے۔”
(6) : سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک دن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

“إِنَّكُمْ قَدْ أَحْدَثْتُمْ زِيَّ سَوْءٍ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم نَهَى عَنْ الزُّورِ. قال: وَجَاءَ رَجُلٌ بِعَصًا عَلَى رَأْسِهَا خِرْقَةٌ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ رضي الله عنه: ( أَلَا وَهَذَا الزُّورُ ) قال قتادة: يَعْنِي مَا يُكَثِّرُ بِهِ النِّسَاءُ أَشْعَارَهُنَّ مِنْ الْخِرَق”
(مسلم کتاب اللباس والزینۃ(124۔2127) مسند احمد 4/93)

“تم نے بُری وضع ایجاد کردی ہے اور یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زُور سے منع کیا ہے۔ایک شخص ایک لکڑی لے کر آیا جس کی نوک پر ایک چیتھڑا تھا۔معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا خبردار یہی زُور ہے۔راوی حدیث قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:مراد یہ ہے کہ عورتیں چیتھڑے لا کر بال بہت کرلیتی ہیں۔”
(7) : سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ:

فقد روى البخاري ومسلم عن عائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ جَارِيَةً مِنْ الْأَنْصَارِ تَزَوَّجَتْ، وَأَنَّهَا مَرِضَتْ، فَتَمَعَّطَ شَعَرُهَا، فَأَرَادُوا أَنْ يَصِلُوهَا، فَسَأَلُوا النَّبِيَّ صلّى الله عليه وسلّم فَقَالَ: (( لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ ))
(بخاری کتاب اللباس باب وصل الشعر(5934) مسلم کتاب اللباس والزینۃ (117۔2123) نسائی 8/146(5112) مسند احمد 6/111،116،228۔234 مسند طیالسی 1/357 (1840) تاریخ بغداد 11/309 مسند ابی یعلیٰ 8/194(4753))

“ایک انصاری لڑکی کی شادی ہوئی لیکن وہ مریض ہوگئی اس کے سر کے بال گر گئے۔انہوں نے چاہا کہ اس کے بالوں میں مصنوعی بال(وگ) ملا دیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے مصنوعی بال لگانے والی اور لگوانے والی پر لعنت کی ہے۔”
(8) : حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ:

“عن أسماءَ بنتِ أبي بكرٍ رضي الله عنه أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللهِ رضي الله عنها فقالتْ: إِنِّي أَنْكَحْتُ ابْنَتِي، ثُمَّ أَصَابَهَا شَكْوَى، فَتَمَرَّقَ رَأْسُهَا، وَزَوْجُهَا يَسْتَحِثُّنِي بِهَا، أَفَأَصِلُ رَأْسَهَا ؟ فَسَبَّ رَسُولُ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم الوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ”(بخاری کتاب اللباس باب وصل الشعر(5935) مسلم کتاب اللباس والزینۃ باب تحریم فعل الواصلۃ والمتوصلۃ (116۔2123) شرح السنۃ باب النھی عن وصل الشعر والوشم 12/102(3188) مسند احمد 6/345،350،353)

“ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا:میں نے اپنی لڑکی کا نکاح کیا تھا۔پھر اسے بیماری لاحق ہوئی اور سر کے بال گر گئے۔اس کا خاوند خواہش مند ہے کہ میں اس کے بالوں میں مصنوعی بال(وگ) جوڑدوں۔اب کیا میں مصنوعی بال(وگ) لگاسکتی ہوں؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مصنوعی بال لگانے اور لگوانے والی پر لعنت کی۔”
مندرجہ بالا احادیث صحیحہ سے صریحہ محکمہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مصنوعی بال (وگ) ناجائز وممنوع ہیں اور یہ جعلسازی اور دھوکہ ہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی عورت کو بھی وگ لگانے کی اجازت نہیں دی جس کے بال بیماری کی وجہ سے گر گئے تھے۔حالانکہ اس عورت کا خاوند بھی خواہش مند تھا کہ وہ وِگ استعمال کرے لیکن امام اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کام سرانجام دینے والے پر لعنت کی۔
ظاہر ہے کہ عورتوں کے لیے سر کے بال زینت ہیں اور محرم کے سامنے اظہار زینت ایک فطری تقاضا ہے اور اسلام محرم افراد کے سامنے اس کی اجازت بھی دیتا ہے لیکن اس کے باوجود جعلی اور مصنوعی بال استعمال کرنے پر سخت وعید ہے ۔جب عورت کو اس کی اجازت نہیں تو مرد کو وِگ استعمال کرنے کی اجازت کس طرح ہوسکتی ہے۔اس حرمت کا اطلاق مردوں پر بالاولیٰ ہے اور صحیح بخاری کتاب اللباس باب وصل الشعر(5938) وغیرہ میں اسے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہود کا عمل قرار دیا ہے چنانچہ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں:

“قَدِمَ مُعَاوِيَةُ المدينةَ آخِرَ قَدْمَةٍ قَدِمَهَا، فَخَطَبَنَا فَأَخْرَجَ كُبَّةً مِنَ الشَّعْرِ قَالَ: مَا كُنْتُ أَرَى أَحَدًا يَفْعَلُ هَذَا غَيْرَ اليَهُودِ، إنَّ النَّبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسلَّمَ سَمَّاهُ الزُّورَ، يَعْنِي: الوَاصِلَةَ فِي الشَّعْرِ”

“امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ میں آخری مرتبہ تشریف لائے تو ہمیں خطبہ دیا اوربالوں کا ایک گچھا نکال کر فرمایا:میں نہیں سمجھتا کہ یہودیوں کے علاوہ اور کوئی یہ فیشن کرتا ہوگا۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زُور(جھوٹ،فریب) سے تعبیر فرمایا یعنی بال جوڑنا۔”
اس حدیث سے بالصراحت سے یہ معلوم ہوا کہ وِگ لگانا یہودیوں کاکام تھا اور آج بھی ہے لہذا مسلمان مردہوں یا عورتیں،انہیں وِگ لگانے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔
امام ابن قدامہ مقدسی رحمة الله عليه فرماتےہیں:

“فهذه الخصال محرمة ; لأن النبي صلى الله عليه وسلم لعن فاعلها ولا يجوز لعن فاعل المباح”(المغنی 1/129)

“حدیث میں ذکر کردہ خصلتیں حرام ہیں۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عامل پر لعنت کی ہے اور مباح کام سرانجام دینے والے کو لعنت کرنا جائز نہیں”یعنی وِگ وغیرہ لگانا حرام ہے کیونکہ وِگ لگانے پر شرع میں لعنت وارد ہوئی ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

“وهذه الأحاديث صريحة في تحريم الوصل ، ولعن الواصلة والمستوصلة مطلقا ، وهذا هو الظاهر المختار”(شرح مسلم للنووی(14/87 طبع بیروت)

“یہ احادیث وِگ کی حرمت اور وِگ لگانے اور لگوانے والی پر لعنت میں مطلق طور پر واضح ہیں اور یہی مذہب ظاہر ومختار ہے۔”
(نیز دیکھیں السراج الوھاج من کثف مطالب صحیح مسلم بن الحجاج 2/306 للنواب صدیق حسن خان قنوجی رحمۃ اللہ علیہ )
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

“فَقَالَ مَالِك وَالطَّبَرِيّ وَكَثِيرُونَ أَوْ الْأَكْثَرُونَ : الْوَصْل مَمْنُوع بِكُلِّ شَيْء سَوَاء وَصَلَتْهُ بِشَعْرِ أَوْ صُوف أَوْ خِرَق , وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ جَابِر الَّذِي ذَكَرَهُ مُسْلِم بَعْدُ أَنَّ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَجَرَ أَنْ تَصِل الْمَرْأَة بِرَأْسِهَا شَيْئًا”

“امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،امام طبری رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر بہت سے ائمہ دین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:بالوں کو ہر چیز کے ساتھ جوڑنا منع ہے خواہ انہیں دیگر بالوں یا اون یا کپڑے کے ساتھ جوڑا جائے اور ان ائمہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے احتجاج کیا ہے جسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بعد ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو اس بات سے ڈانٹا ہے کہ وہ اپنے سر کے (بالوں) کے ساتھ کسی اور چیز کو جوڑے۔”
(یہ حدیث صحیح مسلم کتاب اللباس والزینۃ (121۔2126) اور مسند احمد 3/296 میں موجود ہے۔نیز دیکھیں غایۃ المرام للالبانی حفظہ اللہ ص(80،82)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:

“وفي هذا الحديث أن الوصل حرام، سواء كان لمعذورة أو عروس أو غيرهما”(شرح مسلم للنوی 14/88 السراج الوھاج 2/306)

“اور اس حدیث(اسماء) میں یہ بات ہے کہ وِگ لگانا حرام ہے خواہ وہ معذور کے لیے ہو یا دلہن کے لیے یاان دونوں کے علاوہ کے لیے ہو۔”
نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ اس کے بعد فرماتے ہیں:
“وَهُوَ الْحَقُّ” “یہی بات حق ہے”
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

“وَفِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ حُجَّةٌ لِمَنْ قَالَ يَحْرُمُ الْوَصْلُ فِي الشَّعْرِ وَالْوَشْمُ وَالنَّمْصُ عَلَى الْفَاعِلِ وَالْمَفْعُولِ بِهِ وَهِيَ حُجَّةٌ عَلَى مَنْ حَمَلَ النَّهْيَ فِيهِ عَلَى التَّنْزِيهِ لِأَنَّ دَلَالَةَ اللَّعْنِ عَلَى التَّحْرِيمِ مِنْ أَقْوَى الدَّلَالَاتِ بَلْ عِنْدَ بَعْضِهِمْ أَنَّهُ مِنْ عَلَامَاتِ الْكَبِيرَةِ”(فتح الباري 10/377)

“ان احادیث میں ایسے آدمی کے لیے دلیل ہے جو کہتاہے کہ بالوں میں وِگ لگانا،جسم گود کرنیل بھرنا اور چہرے کے بال نوچنا فاعل اور مفعول دونوں پرحرام ہیں اور یہ ان لوگوں پر حجت ہے۔جونہی کو تنزیہ پر محمول کرتے ہیں اس لیے کہ لفظ لعن کی دلالت حرمت پرقوی ترین دلالتوں میں سے ہے بلکہ بعض کے نزدیک کبیرہ گناہوں کی علامات میں سے ہے۔
مندرجہ بالا احادیث صحیحہ اور ائمہ محدثین کی تشریحات سے واضح ہواکہ مصنوعی بال لگانا ممنوع وحرام ہیں اور یہود کی عادات میں سے ہے۔مردوزن اس حکم میں برابر ہیں۔
گنجے پن کو ختم کرنے کے لیے صحیح علاج کروایا جاسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لیے دواوعلاج رکھا ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً”(بخاری کتاب الطب (5678)

“اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نازل نہیں کی مگر اس کے لیے اس نے شفا بھی نازل کی ہے۔”
اُسامہ بن شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

“عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِهِمْ الطَّيْرُ فَسَلَّمْتُ ثُمَّ قَعَدْتُ، فَجَاءَ الْأَعْرَابُ مِنْ هَا هُنَا وَهَا هُنَا، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَتَدَاوَى فَقَالَ تَدَاوَوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ دَوَاءً غَيْرَ دَاءٍ وَاحِدٍ الْهَرَمُ “((الترمذي، أبو داود، ابن ماجه، أحمد عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ ))

“میں نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آیا اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین (آپ کے گرد) ایسے تھے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے ہیں۔میں نے سلام کیا پھر بیٹھ گیا دیہاتی لوگ اِدھر اُدھر سے آئے تو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا ہم علاج کریں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:علاج کرو یقیناً اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں رکھی مگر اس کے لیے دوا بھی اُتاری ہے سوائے ایک بیماری کے اور وہ موت ہے۔
معلوم ہوا کہ ہر مرض کا علاج موجود ہے سوائے موت کے۔اس لیے گنجے پن کا علاج کیا جاسکتا ہے اور سوال میں موجود جو طریقہ علاج ذکر کیا گیا ہے اس میں بظاہر کوئی ممانعت معلوم نہیں ہوتی جیسے آدمی کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کردوسری جگہ پر بطور علاج لگایا جانا بالاتفاق جائز ہے اسی طرح جسم کے کسی جگہ کے بال اُتار کر اگر سر پر لگانے سے بال اُگ آتے ہیں تو کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔
[آپ کے مسائل اور ان کا حل ج : 2۔كتاب الادب۔ص : 539]

ناقل: فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ