سوال (614)
مصنوعی دانت لگوانا کیسا ہے؟
جواب
مصنوعی دانت لگوانے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ہمارے اسلاف و جید علماء کرام تو مرد کے لیے سونے کے دانت لگوانے کے جواز کے بھی قائل ہیں اور ساتھ اس بات کے قائل ہیں کہ وضوء کے لیے ان کے اتارنے کی ضرورت نہیں۔
فتوی اصحاب الحدیث کی عبارت آپ ملاحظہ فرائیں امید ہے کہ کافی رہے گی۔
«مردوں کو شدید ضرورت کے بغیر سونے کا دانت لگاناجائز نہیں ہے ،البتہ عورتیں اسے بطور زینت لگا سکتی ہیں اور ایسا کرنا عورتوں کے لئے اسراف نہیں ہے۔ البتہ اگرکوئی مرد یا عورت جس نے سونے کادانت لگوایا ہو اگرفوت ہوجائے تواس دانت کو اتار لینا چاہیے، اگر اس کو اتارنے سے مسوڑا پھٹنے کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں اسے باقی رہنے دیاجائے، چونکہ سونا مال ہے اورمرنے کے بعد وہ مال اس کے وارثوں کا ہوجاتا ہے، اس بنا پر اسے میت کے پاس نہیں رہنے دینا چاہیے۔ وضو کرتے وقت اس قسم کے مصنوعی دانتوں کو اتارنے کی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ وضوکرتے وقت انگوٹھی کواتارناواجب نہیں ہے، البتہ اسے حرکت دینابہتر ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی پہنتے تھے، لیکن دوران وضواس کااتارنا منقول نہیں ہے ،ظاہر ہے کہ دانتوں کی نسبت انگوٹھی پانی کے پہنچنے میں زیادہ رکاوٹ کاباعث ہے، بعض دانت فکس ہوتے ہیں انہیں اتارنا، پھرلگانا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لئے وضو کرتے وقت سونے یادیگر مصنوعی دانت اتارنے کی ضروری نہیں ہیں» [فتاوی اصحاب الحدیث جلد: 2 ص: 398]
فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ
سوال: مصنوعی دانت لگانا کیسا ہے؟
جواب: مصنوعی دانت لگوانا شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ ضرورت ہو۔مثلاً اصل دانت گر گئے ہوں یا چبانے میں مشکل ہو۔ اور ناجائز مواد استعمال نہ کیا گیا ہو مثلاً خنزیر کی ہڈی یا ناپاک مواد اور دھوکہ بھی نہ ہو یعنی نکاح کے معاملے یا دھوکہ دہی میں استعمال نہ ہو، اگر یہ دانت فکس ہوں اور منہ کے اندر مستقل طور پر لگے ہوں تو غسل و وضو میں ان کی وجہ سے پانی کے نہ پہنچنے پر کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ عذر میں داخل ہے۔
نبی ﷺ نے ایک صحابی کو لوہے کی ناک کی جگہ چاندی کی ناک لگوانے کی اجازت دی۔ [ابو داؤد: 4195]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بدن کے کسی عضو کی جگہ مصنوعی چیز استعمال کرنا جائز ہے۔
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ عبد الباسط شیخ حفظہ اللہ
اگر کسی وجہ سے حقیقی دانت میں کوئی نقص پیدا ہوجائے، دانت ٹوٹ جائیں تو اس کی جگہ پر مصنوعی دانت لگا سکتے ہیں۔
أَنَّ جَدَّهُ عَرْفَجَةَ بْنَ أَسْعَدَ قُطِعَ أَنْفُهُ يَوْمَ الْكُلَابِ فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ فَأَنْتَنَ عَلَيْهِ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ.[سنن ابوداؤد : 4232]
عبدالرحمٰن بن طرفہ کہتے ہیں کہ کے دادا عرفجہ بن اسعد کی ناک جنگ کلاب کے دن کاٹ لی گئی، تو انہوں نے چاندی کی ایک ناک بنوائی، انہیں اس کی بدبو محسوس ہوئی، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا، تو انہوں نے سونے کی ناک بنوا لی۔ [سندہ حسن]
جس طرح مذکورہ حدیث کے مطابق مصنوعی ناک کا جواز ہے اسی طرح عذر کے تحت مصنوعی دانتوں کا بھی جواز بیان کیا جائے گا۔ البتہ صرف زینت کے لیے ایسا کرنا تو اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے کے مترادف ہے۔ جوکہ حرام ہے۔ [النساء: 119] ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ