اے صاحبِ قلم!
مبارک ہو کہ آپ کو اے آئی سے تحریر لکھوانا آ گیا ہے، یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن ساتھ یہ بھی معلومات میں اضافہ کرلیں کہ بہت سارے لوگ پہلی نظر میں پہچان لیتے ہیں کہ کوئی تحریر اے آئی جنریٹڈ ہے۔
لہذا مصنوعی تحریروں کی پیشانی یا پشت پر اپنا نام لکھنے کی زحمت نہ کریں، ورنہ بہت سارے لوگوں کی نظروں میں آپ کا وقار کم ہو گا۔

#خیال_خاطر

مصنوعی تحریروں کی کچھ علامات

جس طرح انسان اپنے اسلوب اور طریقہ تحریر سے پہچانے جاتے ہیں، اسی طرح مشینی تحریر کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس میں اصل چیز تو ذوق، شعور اور احساس ہی ہوتا ہے، جسے بعض دفعہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن پھر بھی کچھ نشانیاں، قرائن اور علامات بیان کی جا سکتی ہیں جن سے کسی تحریر کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مصنوعی اور اے آئی جنریٹڈ ہے۔
میں چونکہ عموما اے آئی جنریٹڈ تحریروں کے حوالے سے گفتگو کرتا رہتا ہوں، تو بعض احباب نے کہا کہ مصنوعی تحریروں کی کچھ نشانیاں ذکر کر دیں، اس تحریر کا یہی مقصد ہے۔
مصنوعی اور اے آئی جنریٹڈ تحریروں کی علامات اور نشانیوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ عمومی علامات اور خصوصی علامات۔
1️⃣ عمومی علامات و قرائن جو تقریبا ہر مصنوعی تحریر میں موجود ہوتی ہیں۔ ان میں سے پانچ درج ذیل ہیں:
1۔ خاص قسم کی فارمیٹنگ ہوتی ہے، جس میں بولڈ کے لیے ڈبل سٹار ** اور #، ۔۔۔۔ جیسے سیمبلز، ایموجیز اور سپیسز کا بہ کثرت استعمال ہوتا ہے۔
2۔ غیر مانوس الفاظ و تراکیب کا استعمال، اسی طرح غیر ضروری لفاظی
3۔ مصنوعی تحریر چونکہ مشین کی پیداوار ہوتی ہے، اس لیے انسانی احساسات و جذبات سے خالی ہوتی ہے۔ جسے بتانا مشکل ہو سکتا ہے، لیکن محسوس کیا جا سکتا ہے۔
4۔ انسانی تحریر میں عموماً املاء وغیرہ کی چھوٹی موٹی غلطیاں ہوتی ہیں، جبکہ اے آئی اس حوالے سے حد سے زیادہ حساس اور درست گرامر استعمال کرتی ہے، جس سے اس کا مصنوعی ہونا نمایاں ہو رہا ہوتا ہے۔
5۔ بلا ضرورت تحریر کی تنظیم و ترتیب یا ایک ہی بات کا تکرار جیسا کہ ہر بات کو پوائنٹس کی شکل میں ذکر کرنا اور پھر آخر میں جا کر خلاصہ یا نتیجہ بیان کرنا، یہ بھی اے آئی کا ہی اسلوب ہے۔
2️⃣ خصوصی علامات سے مراد یہ ہے کہ بعض افراد کو آپ ذاتی طور پر جانتے ہیں، اور آپ کو ان کی اہلیت، طریقہ تحریر، اسلوب، اور معلومات کا اندازہ ہوتا ہے، بعض دفعہ ان کی طرف سے ایسی تحریر آتی ہے جس سے محسوس ہو جاتا ہے کہ یہ اس شخص کی اپنی تحریر نہیں ہے۔ مثلا:
1۔ ایسا شخص جو پانچ سال سے آپ کے ساتھ موجود ہے اور اس نے کبھی تین سطریں تحریر نہیں کیں، اچانک لمبی لمبی پوسٹس لکھنا شروع کر دے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے اے آئی ٹولز کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
2۔ کوئی صاحبِ قلم کسی ایسے موضوع پر لکھے، جس پر عموما اس نے نہیں لکھا ہوتا، جیسا کہ ایک عالم دین جو سیرت و سوانج پر لکھتا ہے، اچانک گنجلک فقہی مسائل پر لکھنا شروع کردے، یا طبی موضوعات پر اس کی لمبی لمبی تحریریں آنا شروع ہو جائیں۔ اسی طرح کسی اردو لکھنے والے شخص کا انگلش اور عربی میں لکھنا شروع کر دینا وغیرہ۔
3۔ بعض لوگ لکھتے ہیں اور خاص قسم کی املاء وغیرہ کی غلطیاں کرتے ہیں اور یہ ان کی پہچان بن جاتی ہے، ان کی طرف سے ایسی تحریر کا آنا جو غلطیوں سے مبرا ہو تو اس کا مطلب ہے یہ اے آئی جنریٹڈ تحریر ہے۔
یہ چند چیزیں ہیں، جو میں نے پچھلے چند سالوں میں محسوس کی ہیں، یقینا دیگر لوگ اس میں مزید اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔
آخر میں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ یہ محض قرائن اور علامات ہیں جن کا انحصار ذوق و احساس پر ہے، انہیں کسی تحریر کے اے آئی جنریٹڈ یا مصنوعی ہونے پر حتمی و قطعی دلائل کے طور پر پیش کرنا مشکل ہے، ہو سکتا ہے اے آئی سے ایسی تحریر بھی جنریٹ کروا لی جائے جس میں یہ علامات موجود نہ ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی نے تحریر خود لکھی ہو، لیکن کسی کو یہ محسوس ہو رہا ہو کہ یہ مصنوعی تحریر ہے۔
واللہ اعلم

#خیال_خاطر

اہل علم کہتے ہیں کہ جہاں سے نقل کریں، اس کا حوالہ ضرور دیں، اور کہا جاتا ہے کہ کسی سے نقل کرنا لیکن اس کا حوالہ نہ دینا یا کسی کی تحریر پر اپنا نام لکھ لینا یہ نا انصافی اور خیانت ہے۔
اور یہ ’نا انصافی و خیانت‘ آج کل سب سے زیادہ اے آئی ٹولز کے ساتھ ہو رہی ہے، لوگ ان سے تحریریں لکھوا کر ان کا ذکر تک کرنا مناسب نہیں سمجھتے!
یہ بہت مناسب ہو گا کہ اے آئی جنریٹڈ تحریر کے نیچے کچھ اس طرح لکھ دیا جائے:
’فلاں محقق/ریسرچر کی فلاں اے آئی ٹول سے جنریٹڈ / نقل کردہ تحریر‘
اس طرح ریسرچر صاحب کا نام بھی آ جائے گا، اور اے آئی ٹول کے علم و فضل کا اعتراف بھی ہو جائے گا۔

#خیال_خاطر

آج سے کوئی بیس سال پہلے مشایخ کہا کرتے تھے کہ شاملہ وغیرہ سے تلاش کردہ چیزوں کی اصل کتاب سے ضرور تصدیق کریں، آج یہ کہنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ ’اے آئی ٹولز‘ سے لکھوائی گئی تحریروں کی کم از کم شاملہ وغیرہ سے تحقیق ضرور کریں۔
چیٹ جی پی ٹی وغیرہ کے اقتباسات اور حوالہ جات پر ایک فیصد بھی اعتبار کرنا انتہائی درجے کی کوتاہی بلکہ حماقت ہے۔

#خیال_خاطر