“ماتم کی شرعی حیثیت”
ماتم کا لغوی مطلب ہے غم منانا، اور شرعی اصطلاح میں اس سے مراد کسی فوت ہونے والے کے غم میں چیخ و پکار، نوحہ، گریہ زاری، کپڑے پھاڑنا، خود کو پیٹنا، سینہ کوبی کرنا اور دیگر غیر شرعی حرکات ہیں۔
اسلام نے جہاں غم کے اظہار کی اجازت دی ہے، وہیں اس کے طریقے متعین کئے ہیں۔ بےصبری، جزع و فزع اور نوحہ و ماتم کو ممنوع قرار دیا ہے۔
قرآن کریم کی روشنی میں:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ (سورۃ البقرۃ: 154)
“جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں شعور نہیں۔”
یہ آیت مبارکہ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ موت پر حد سے بڑھ کر نوحہ و ماتم کرنا ایمان کی کمزوری اور عقیدہ شہادت کی خلاف ورزی ہے۔
سنتِ رسول ﷺ کی روشنی میں:
1. حضرتِ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ليس منا من لطم الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية (صحیح بخاری: 1294، صحیح مسلم: 103)
“وہ ہم میں سے نہیں جو چہرے پر طمانچے مارے، گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی پکار کرے۔”
2. مزید ازاں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الميت يعذب في قبره بما نيح عليه (صحیح بخاری: 1292، صحیح مسلم: 933)
“میّت کو اس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔”
3. سیدنا ابو موسیٰ رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ:
بَرِئَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ الْحَالِقَةِ، وَالصَّالِقَةِ، وَالشَّاقَّةِ (صحیح بخاری: 1296)
“حضرت رسول اللہ ﷺ نے حلقہ کرنے والی، چیخنے چلانے والی، اور گریبان پھاڑنے والی عورت سے براءت کا اظہار فرمایا۔”
4. سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ:
النائحة إذا لم تتب قبل موتها تقام يوم القيامة وعليها سربال من قطران ودرع من جرب (صحیح مسلم:103)
“نوحہ کرنے والی عورت اگر موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس پر تارکول کا لباس اور خارش والا کَپڑا ہوگا۔”
سلف صالحین کا طرزِ عمل:
1. حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنی شہادت کے وقت وصیت کی تھی کہ:
“لوگ نوحہ نہ کریں، اگر کوئی نوحہ کرے تو اسے سختی سے روکا جائے۔” (مصنف ابن ابی شیبہ:11638)
2. حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: نوحہ کرنے والی عورت پر قیامت کے دن عذاب ہو گا۔”
(مسند احمد:845)
3. امام اہل السنہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ نے فرمایا کہ:
“نوحہ اور ماتم جاہلیت کا عمل ہے، اور یہ فعل گناہ ہے۔”
(الآداب الشرعیۃ،شرح منہاج الطالبین)
خلاصہ کلام:
دین اسلام میں ماتم کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ یہ جاہلیت کا عمل ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا۔ مسلمان کا شیوہ صبر و رضا ہے، نہ کہ شور و غوغا۔ حضرت رسول اللّٰہ،صحابہ اکرام اور سلف صالحین کے طریقے پر چلتے ہوئے ہمیں غم کی حالت میں صبر، دعا اور نیک اعمال کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
ازقلمِ یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء