مولانا عتیق اللہ سلفی رحمہ کی وفات
موت العالم موت العالم
ایک مسافر تھا کچھ دیر ٹھہرا یہاں
اپنی منزل کو آخر روانہ ہوا
اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ایسے رجالِ کار پیدا فرمائے ہیں جو محض گفتار نہیں بلکہ کردار کے پیکر ہوتے ہیں۔ جنکی باتیں دل سے نکلتی ہیں اور مخاطب کے دل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہر دور میں شعلہ بیاں،شیریں بیاں، خوش الحان خطباء کی کمی کبھی نہیں رہی، مگر وہ ہستیاں جو اپنے عمل، اخلاص اور پاکیزہ کردار سے دلوں کو تسخیر کریں، وہ بہت کم نظر آتی ہیں۔ انہی نادر شخصیات میں سے ایک مولانا عتیق اللہ سلفی رحمہ اللہ تھے۔
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا:
“موتُ العالِم ثُلمَةٌ في الإسلامِ لا يسُدُّها شيءٌ ما اختلف الليلُ والنهارُ”
یعنی: عالم کی موت اسلام میں ایک دراڑ ہے، جسے دن اور رات کے بدلنے تک کوئی چیز پُر نہیں کر سکتی۔
آپ کی گفتگو سننے والا یہ محسوس کرتا تھا گویا وہ کسی اور عہد کا انسان ہے جو اخلاص، تقویٰ اور للہیت کے ساتھ اس زمانے میں جلوہ گر ہوا ہے۔ آپ کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ میں خطابت کی چمک دمک نہ تھے، بلکہ ایک دردِ دل، ایک نصیحت اور ایک پکار تھی جو براہِ راست دلوں پر اثر انداز ہوتی تھی۔ خاص طور پر نماز کی تلقین، تعمیر سیرت و کردار اور فکر آخرت آپ کی مجالس کا مرکزی مضمون ہوتا، اور آپ اپنے قول ہی نہیں بلکہ عمل سے بھی اس کی عظمت کو اجاگر کرتے۔
مولانا مرحوم کی پوری زندگی دعوت، تبلیغ اور اصلاحِ امت کے لیے وقف رہی۔ آپ نے اپنی دینی غیرت، اخلاص اور کردار کی پختگی سے ایک روشن مثال قائم کی۔ ایسے علماء کی رحلت دراصل امت کے لیے ایک عظیم خسارہ ہے۔
اللّٰه تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو نور و رحمت سے بھر دے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔
اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا
يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ.
تحریر: عبدالرحمٰن سعیدی
یہ بھی پڑھیں: مولانا عتیق اللہ سلفی رحمہ اللہ سپردِ خاک ہوئے!