مولانا خلیل الرحمٰن لکھوی حفظہ اللہ کا مختصر تعارف

“لولا العلماء لصار الناس مثل البهائم”
اگر علماء نہ ہوں تو لوگ جانوروں کی مانند ہوجائیں

فضیلةالشیخ بقیة السلف شیخ الحدیث خلیل الرحمٰن لکھوی حفظہ اللہ (رئیس: معہدالقرآن الکریم کراچی) کا مختصر تعارف

(شیخ حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ کے برادر اصغر ہیں شیخ خلیل الرحمٰن لکھوی حفظہ اللہ )

تعارف خاندان
برصغیر پاک وہند میں متحدہ پنجاب کا خانوادہ لکھویہ صف اول میں شمار ہوتا ہے یہ خاندان تمام خاندانوں میں مشہور ومعروف ہے۔
فضیلت علمی، دینی بصیرت،تصوف و سلوک، زہدوتقوی، علوم دینیہ میں کمال وجامعیت، تصنیف وتالیف بیعت وارشاد اور درس وتدریس ودعوت وتبلیغ میں کوئی اس خاندان کے اصحاب علم کا حریف نہیں، پھر جس جذبہ خلوص اور شوق ولگن کے ساتھ اس کے ارباب کمال نے جو دین اسلام کیلئے مساعی کیں اور جو کررہے ہیں اس میں بھی کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ انکسار وتواضع، خشوع وخضوع، عاجزی و انکساری للّہیت اور خوف خدا ہمیشہ ان حضرات عالی مرتبت کا طرہ امتیاز رہا ہے۔
یوں تو ان کی تگ و تازعلمی کا دائرہ بر صغیر پاک وہند کے دور دراز گوشوں تک پھیلا ہوا ہے لیکن بالخصوص پنجاب میں ان کے اثر ونفوذ کا یہ حال ہے کہ اس خطے کے اکثر اہل علم بالواسطہ یا بلاواسطہ اس خاندان کے فیض یافتہ ہیں، اس خاندان کی تدریسی تصنیفی وتبلیغی خدمات نہایت وسیع ہیں۔
نام ونسب
شیخ محترم خلیل الرحمن لکھوی حفظہ اللہ کا سلسلہ نسب 25 پشت سے امام محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کی وساطت سے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ تک پہنچ جاتا ہے۔
خلیل الرحمن بن حبیب الرحمن بن عطاءاللہ بن عبدالقادر لکھوی بن حکیم محمد شریف بن حافظ بارک اللہ رحمہ اللہ
ابتدائی تعلیم
پرائمری تعلیم آپ نے گاؤں میں ہی حاصل کی پھر رینالہ خورد کے ہائی سکول میں داخل ہوئے۔
دینی تعلیم کا آغاز
شیخ محترم 1971ء میں مزید دنیاوی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے اور والد صاحب کا بھی یہی کہنا تھاکہ تو دیناوی تعلیم حاصل کر کیونکہ تو خاموش بہت رہتا ہے تو مولوی نہ بن کیونکہ مولوی تو ہوشیارہوتا ہے تیرے اندر یہ چیزیں نہیں ہیں ۔آگے تعلیم جاری رکھنے کے لئے شناختی کارڈ کی ضرورت تھی تو آپ شناختی کارڈ بنانے چلے گئے لیکن بیچ کے دن فارغ ہونے کی وجہ سے آپ نے جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں داخلہ لے لیا۔
جامعہ محمدیہ کے اساتذہ کرام
(1) شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ
سے نسائی اور شرح نخبۃ الفکر پڑھی
(2)مفسر قرآن مولانا عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ سے ابن ماجہ پڑھی
(3)فضیلةالشیخ مولانا عبدالحمید ہزاروی رحمہ اللہ سے بلوغ المرام، نحو میر ،صرف میر ،ھدایۃ النحو پڑھی
(4) مولانا جمعہ خان سے تہذیب منطق پڑھی
(5)فضیلةالشیخ ابو تقی حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ سے ابواب الصرف ، علم الصیغہ پڑھی۔
جامعہ محمدیہ میں تین سال زیر تعلیم رہے اور ابتدائی کتب پڑھیں
جامع مسجد چینیانوالی میں داخلہ لیا
پھر 1975ء میں جامع مسجد چینیانوالی لاہورچلے گئے
(6)شیخ الحدیث مولانا عبداللہ عفیف رحمہ اللہ سے نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر پڑھی
(7)فضیلةالشیخ مولانا حافظ عبداللہ بھٹوی صاحب سے ترمذی پڑھی
(8)فضیلةالشیخ مولانا محمد اسحاق صاحب سے تلخیص المفتاح پڑھی اس ادارہ میں ایک سال پڑھا تھاکہ آپ کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی میں ہوگیا ۔
مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ
1976ء میں آپ کا داخلہ مدینہ یونیورسٹی میں ہوگیا وہاں آپ نے کلیۃ الحدیث میں داخلہ لیا
مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کا قصہ یوں ہے کہ محدث العصر حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کے پاس آپ گئے اور ان سے کہا کہ جو میں نے پڑھا وہ آپ لکھ دیں اور اپنی تصدیق بھی لکھ دیں میں اسے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے بھیجوں گا اور شیخ صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب لکھ کردینا ہے تو اسے مدرسہ کے لیٹر پیڈ پے لکھ دوں تو شیخ صاحب نے مدرسہ کے لیٹر پیڈ پے عربی میں لکھ دیا وہ جامعہ اسلامیہ بھیج دیا اور وہ قبول ہوگیا۔
مدینہ یونیورسٹی کے مشائخ کرام
(9)شیخ عبدالقادر حبیب اللہ سندھی صاحب
(10)شیخ عبدالرئوف اللبدی صاحب
(11)ڈاکٹر محمود صاحب میرہ سے پڑھا ۔
(12)استاذالتفسیر عبدالفتاح عاشور (13)شیخ عبدالمحسن العباد صاحب سے اصول حدیث پڑھی
(14)فضیلةالشیخ امان جامی صاحب سے عقیدہ پڑھا
اور نیل الاوطار ،شرح عقیدۃ الطحاویۃ ،شرح ابن عقیل ،تفسیر ابن کثیر،سیرۃ ابن ہشام ،منتخبات کتب ستہ ،تیسیرمصطلح الحدیث ،علم جرح والتعدیل ،الدفاع عن السنۃ ،تقریب التہذیب وغیر ہ یہ کتب آپ نے وہاں پڑھیں ۔1980ء میں آپ وہاں سے سند فراغت حاصل کی۔
تدریس کا آغاز
آپ نے بہت سے مدارس میں اپنا علم پہنچایا۔
جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی
1980ء میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی میں آپ کو مدینہ یونیورسٹی کی طرف سے مدرس بنا کر بھیج دیا گیا یہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ابتدائی سال تھا اس جامعہ میں20 سال پڑھایا یعنی 2000ء میں استعفٰی دیا اس کے بعد جامعۃ الدراسات الاسلامیہ میں دو سال شیخ الحدیث رہے
جامعہ ابی بکر میں کلیہ کے استاذ مقرر ہوے تھے آخر تک یہیں رہے اور اس دوران مدیرالتعلیم بھی رہے
معہد القرآن الکریم کی بنیاد
1985ء میں جامع مسجد بیت الرضوان میں پڑھائی کا سلسلہ شروع کیا تو پھر 1993ء میں آپ نے معہد القرآن الکریم کی بنیاد رکھی اور حفظ وناظرہ کی کلاسیں شروع کیں۔2000ء میں درسِ نظامی بھی شروع کردیا اور ابتداء سے انتہا ء تک پڑھایا
2000ء سے اب تک اپنے مدرسہ معہد القرآن الکریم میں مدرس ہیں اور شیخ الحدیث کے بھی فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ صحیح بخاری ،صحیح مسلم،
ابوداؤد ،ترمذی ،نسائی ،مشکوٰۃ،
نیل الاوطار،شرح ابن عقیل ،ابن ماجہ، تدریب الراوی وغیرہ کتب آپ نے پڑھائی ہیں۔
مشہور تلامذہ
شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے وللہ الحمد علی ذلک اللھم زد علمھم وعملھم.
(1)مولانا عبد اللطیف ارشد رحمہ اللہ،
(2)مولانا محمد افضل اثری صاحب ،
(3)محمد ابراہیم بھٹی صاحب،
(4)مولانا طاہر باغ صاحب ،
(5)مولانا علامہ نور محمدصاحب،
(6)ارشد وزیر آبادی صاحب ،
(7)محمد حسین لکھوی صاحب ،
(8)مولانا جناب طاہر آصف صاحب ،
(9)مولانا جناب سلیمان خان صاحب ،
(10) مولانا عاطف احمد صاحب،
خطابت کے فرائض
شیخ محترم 1987سے 2023 تک
کراچی کی معروف قدیمی مسجد(ایک منارہ)میں36 سال خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔

شیخ محترم کی تصانیف
(1)احسن البدایۃ فی اصول الروایۃ یہ کتاب جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے نصاب میں ہے
(2) سفر کے آداب واحکام
(3)قرض کے آداب و احکام
(4) تخریج حجۃاللہ البالغۃ یہ آپ کی پی، ایچ، ڈی کا رسالہ ہے
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ محترم کی دینی، تصنیفی،تدریسی ،تبلیغی اور ملی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔آمین!

●ناشر: حافظ امجد ربانی
● فاضل: جامعہ سلفیہ فیصل آباد
●مدرس: جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سندر لاہور

یہ بھی پڑھیں: مفتی عبدالولی خان صاحب حفظہ اللہ کا تعارف