مولانا مودودی صاحب کا “معجزہ شقِ قمر” کی صحیح احادیث کا انکار

مولانا مودودی صاحب لوگوں کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ قرآن شق القمر کو قربِ قیامت کی نشانی کہہ رہا ہیں اور حدیث اسے آپ ﷺ کا معجزہ، مطلب قرآن اور حدیث میں تضاد ہے، بلکہ احادیث قرآن مجید کی تفسیر ہے اور قرآن کی آیت کا وہی معنی معتبر ہوگا جو آپ ﷺ نے کیا اور تواتور سے سلف صالحین سے ہمیں پہنچا۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کہتے ہیں کہ ہم آپ ﷺ سے قرآن مجید کی دس آیاتیں لیتے پھر اسے حفظ کرتے پھر اس کا معنی ومطلب لیتے، پھر اس پر عمل کرتے۔ گویا صحابہ کرام نے آپ ﷺ سے صرف قرآن ہی نہیں لیا بلکل قرآن کا معنی ومطلب اور مفہوم بھی لیا، اب جو معنی صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین کو نہیں سمجھا، اس پرفتن دور میں مولانا مودودی صاحب کو سمجھ گیا، گویا 1400 سالوں سے امت کو اس آیت کا حقیقی معنی معلوم ہی نہیں تھا۔
فتح الباری کا حوالہ دے کر امت کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ابن حجرؒ نے اس طرح سے کہاں ہے جب کہ آپ نے حضرت انسؓ کی روایت کا انکار نہیں کیا بلکہ کہاں ہے اس طرح کے الفاظ حضرت انسؓ کی ہی روایت میں ہے۔
علماء نے یہ کہا ہے کہ خاص شق قمر کا مطالبہ کفار کی طرف سے نہیں تھا انہوں نے بس نشانی دکھانے کا مطالبہ کیا تھا تو آپ ﷺ نے شق قمر کا معجزہ دکھایا۔ نشانی کا مطالبے سے متعلق روایات صحیح صریح ہیں۔
یہاں مودودی صاحب سرے سے اس بات کا ہی انکار کر رہے ہیں کہ کفار کی طرف سے کسی طرح کی نشانی کے مطالبہ ہوا ہی نہیں تھا! جو صحیح صریح حدیث کا انکار ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کا صحابہ کرام کی جماعت میں سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔
دوسری یہ کہ ابن حجرؒ نے معجزہ ہونے کا انکار نہیں کیا ہے۔
مزید آگے کی باتوں سے صاف ظاہر ہیکہ معجزہ ماننے والے جمہور امت کی باتوں کو اعتراض کہہ کر اسکی تردید کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

01۔ امام بخاریؒ نے باب باندھا “مشرکین کا نبی ﷺ سے کوئی نشانی چاہنا اور آپ ﷺ کا معجزہ شق القمر دکھانا)

(صحیح البخاری: جلد 05: صحفہ 91)

02۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مکہ والوں نے آپ ﷺ سے کہا تھا کہ انہیں کوئی معجزہ دکھائیں تو آپ نے شق قمر کا معجزہ یعنی چاند کا پھٹ جانا ان کو دکھایا۔

(صحیح بخاری: جلد 05: حدیث 3637: صفحہ 92)

03۔ مولانا محمد داؤد راز سلفیؒ: کفار مکہ کا خیال تھا کہ یہ یعنی محمد ﷺ اپنے جادوں کے زور سے زمین پر عجائبات دکھلا سکتے ہیں، آسمان پر ان کا جادو نہ چل سکے گا، اسی خیال کی بنا پر انہوں نے معجزہ شق قمر طلب کیا۔ چانچہ الله تعالیٰ نے ان کو یہ دکھلا دیا۔

(صحیح بخاری: جلد 05: صفحہ 92)

04۔ انس بن مالک رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ کفار مکہ نے رسول کریم ﷺ سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے چاند کے دوٹکڑے کرکے دکھا دئیے۔ یہاں تک کہ انہوں نے حرا پہاڑ کو ان دونوں ٹکڑوں کے بیچ میں دیکھا۔

(صحیح بخاری: جلد 05: حدیث 3868: صفحہ 223)

05۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مکہ والوں نے نبی کریم ﷺ سے معجزہ دکھانے کو کہا تو آپ ﷺ نے انہیں چاند کے پھٹ جانے کا معجزہ دکھایا۔

(صحیح بخاری: جلد 06: حدیث 4867: صفحہ 351)

06۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا تھا۔

(صحیح بخاری: جلد 06: حدیث 4868: صفحہ 351)

07۔ قسطلانی نے کہا یہ پانچ حدیثیں ہیں جو شق القمر کے باب میں وارد ہیں۔ تین شخص ان کے راوی ہیں حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت علیؓ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ رضی اللہ عنہ صرف روایت کے گواہ ہیں باقی حضرت انس رضی اللہ عنہ تو اس وقت مدینہ میں تھے ان کی عمر پانچ برس کی ہوگی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اس وقت تک پیدا بھی نہیں ہوئے تھے لیکن ان کے سوا اور ایک جماعت صحابہ نے بھی شق القمر کا واقعہ نقل کیا ہے۔

(صحیح بخاری: جلد 06: صفحہ 351)

08۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں چاند کے پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگئے تھے اور آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ لوگو اس پر گواہ رہنا۔

(صحیح بخاری: جلد 05: حدیث 3636: صفحہ 92)

09۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بلاشک وشبہ چاند پھٹ گیا تھا۔

(صحیح بخاری: جلد 05: حدیث 3870: صحفہ 224)

10۔ شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله فرماتے ہیں:

کافروں نے الله کی قدرت کی ایک نشانی مانگی تھی جو خلاف عادت ہو چونکہ چاند کے پھٹنے کا زمانہ آن پہنچا تھا اس لئے آپ نے بھی یہی نشانی دکھلائی۔ چونکہ آپ پہلے سے اس کی خبر دے چکے ہیں اس لئے اس کو معجزہ کہہ سکتے ہیں۔

(صحیح بخاری: جلد 05: صفحہ 91)

11۔ محدث العصر شیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظه الله فرماتے ہیں:

کافروں کا چاند کے پھٹنے کو جادو کہنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک حسی معجزہ تھا جو وقوع پذیر ہوچکا ہے۔

(ھدایہ القاری شرح صحیح البخاری: جلد 05: صفحہ 771)

12۔ محدث العصر شیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظه الله فرماتے ہیں:

شق القمر، یعنی چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے متعلق امام بخاریؒ نے پانچ احادیث پیش کی ہیں جو تین صحابہ کرام رضی الله عنھم سے مروی ہیں: حضرت عبدالله بن مسعودؓ، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت انسؓ۔ حضرت انسؓ اس وقت مدینہ طیبہ میں تھے اور حضرت ابن عباسؓ اس وقت ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ ہی عینی شاہد ہیں۔ بہرحال ان کے علاوہ کئی صحابہ کرام رضی الله عنھم نے شق القمر واقعہ نقل کیا ہے۔

(ھدایہ القاری شرح صحیح البخاری: جلد 07: صفحہ 592،593)

13۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے مطالبہ کہ آپ انھیں کوئی نشانی (معجزہ) دکھائیں تو آپ نے انھیں چاند کے دو ٹکڑے ہونا دکھایا۔

(صحیح مسلم: حدیث 7076)

14۔ محدث العصر شیخ عبدالعزیز علوی حفظه الله فرماتے ہیں:

چاند کا شق ہونا آپ ﷺ کا ایک عظیم معجزہ ہے جسے بہت سے صحابہ کرام نے بیان کیا ہے اور قرآن مجید میں بھی، اس کا ذکر موجود ہے۔ بعض روایت میں ہے، مکہ کے کافروں نے یہ دیکھ کر کہا، ابوکبثہ کے بیٹے نے تم پر جادو کر دیا ہے، مسافروں کا انتظار کرو، اگر انہوں نے بھی تمہاری طرح شق قمر دیکھا ہو تو پھر یہ سچ ہے، اگر انہوں نے تمہاری طرح چاند کو پھٹتا نہ دیکھا ہو تو یہ جادو ہے، جو تم پر اس نے کیا ہے، آنے والوں سے پوچھا گیا تو ہر جہت سے آنے والے مسافروں نے اس کی گواہی دی۔

(تحفة المسلم شرح صحیح مسلم: جلد 08: صفحہ 169؟

15۔ امام المفسرین علامہ ابن کثیر رحمه الله:

چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا یہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ کا ذکر ہے جیسے کہ متواتر احادیث میں صحت کے ساتھ مروی ہے۔
مسند احمد میں ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم ﷺ سے معجزہ طلب کیا جس پر دو مرتبہ چاند شق ہو گیا جس کا ذکر ان دونوں آیتوں میں ہے۔ (صحیح مسلم: 2802) بخاری میں ہے کہ انہیں چاند کے دو ٹکڑے دکھا دئیے، ایک حراء کے اس طرف، ایک اس طرف (صحیح بخاری: 3285) مسند میں ہے ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر دوسرا دوسرے پہاڑ پر۔ اسے دیکھ کر بھی جن کی قسمت میں ایمان نہ تھا بول پڑے کہ محمد نے ہماری آنکھوں پر جادو کر دیا ہے۔ لیکن سمجھداروں نے کہا کہ اگر مان لیا جائے کہ ہم پر جادو کر دیا ہے تو تمام دنیا کے لوگوں پر تو نہیں کر سکتا۔ (مسند احمد:81/4: صحیح) اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے اور روایتیں بھی بہت سی ہیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب چاند پھٹا اور اس کے دو ٹکڑے ہوئے ایک پہاڑ کے پیچھے اور ایک آگے اس وقت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہ۔ مسلم اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے۔ (صحیح مسلم:2801-44)
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور آپ ﷺ نے فرمایا: دیکھو یاد رکھنا اور گواہ رہنا۔ (صحیح مسلم: 48)
ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ کفار نے یہ دیکھ کر کہا یہ ابن ابی کبشہ یعنی رسول اللہ ﷺ کا جادو ہے لیکن ان کے سمجھداروں نے کہا مان لو، ہم پر جادو کیا ہے لیکن ساری دنیا پر تو نہیں کر سکتا، اب جو لوگ سفر سے آئیں ان سے دریافت کرنا کہ کیا انہوں نے بھی اس رات کو چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا چنانچہ وہ آئے ان سے پوچھا انہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے، کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آ کر یہی کہیں تو نبی کریم ﷺ کی سچائی میں کوئی شک نہیں، اب جو باہر سے آیا، جب کبھی آیا، جس طرف سے آیا، ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسی کا بیان اسی آیت میں ہے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری: 545/11)
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہاڑ چاند کے دو ٹکڑوں کے درمیان دکھائی دیتا تھا۔ (مسند احمد:413/1:صحیح)

(المصباح المنیر تہذیب وتحقیق تفسیر ابن کثیر: سورۃ القمر 54: آیت 01: جلد 06: صفحہ 33)

16۔ مفسر قرآن شیخ عبدالرحمٰن بن ناصرالسعدی رحمه الله فرماتے ہیں:

حضرت محمد ﷺ جو کچھ لے کر مبعوث ہوئے ہیں، اس کی صداقت پر دلالت کرنے والا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ جب آپ کی تکذیب کرنے والوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ کوئی ایسا خارق عادت معجزہ دکھائیں جو قرآن کی صحت اور آپ کی صداقت پر دلالت کرے تو آپ نے اللہ کے حکم سے چاند کی طرف اشارہ کردیا چنانچہ چاند اللہ کے حکم سے دوٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا جبل ابی قبیس پر اور دوسرا ٹکڑا جبل قعیقعان پر چلا گیا۔ مشرکین اور دیگر لوگ اس عظیم معجزے کا مشاہدہ کررہے تھے جو عالم علوی میں وقوع پذیر ہوا جس میں مخلوق ملمع سازی کی قدرت رکھتی ہے نہ تخیل کی شعبدہ بازی کرسکتی ہے چنانچہ انہوں نے ایک ایسے معجزے کا مشاہدہ کیا جو اس سے قبل انہوں نے کبھی نہیں دیکھا بلکہ انہوں نے کبھی سنا بھی نہیں تھا کہ آپ سے پہلے گزرے انبیاء ومرسلین کے ہاتھوں پر اس جیسا معجزہ ظاہرہوا ہو وہ اس معجزے کو دیکھ کر مغلوب ہوگئے مگر ایمان ان کے دلوں میں داخل نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بھلائی چاہی۔ انہوں نے اپنی بہتان طرازی اور سرکشی میں پناہ لی اور کہنے لگے: محمد نے ہم پر جادو کردیا، مگر اس کی علامت یہ تھی کہ تم کسی ایسے شخص سے پوچھو جو سفر پر تمہارے پاس آیا ہے اگر حضرت محمد ﷺ تم پر جادو کرنے کی طاقت رکھتے تو وہ اس شخص پر جادو نہیں کرسکتے جس نے تمہاری طرح چاند کے دوٹکڑے ہونے کا مشاہدہ نہیں کیا، چنانچہ انہوں نے اس شخص سے شق قمر کے بارے میں پوچھا جو سفر پر آئے تھے انہوں نے بھی شق قمر کے وقوع کے بارے میں خبر دی۔ اس پر انہوں نے کہا: “سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ” ’یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے محمد نے ہم پر بھی جادو کر دیا اور دوسروں پر بھی۔
یہ ایسا بہتان ہے جو صرف انہی لوگوں میں رواج پاسکتا ہے جو مخلوق میں سب سے زیادہ بے وقوف، ہدایت اور عقل کے راستے سے سب سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی طرف سے صرف اسی ایک معجزے کا انکار نہیں بلکہ ان کے پاس جو بھی معجزہ آتا ہے تو یہ اس کی تکذیب کرنے اور اس کو ٹھکرانے کے لیے تیار رہتے ہیں

(تفسیر السعدی: سورۃ القمر 54: آیت 01: جلد 03: صفحہ 2655،2656)

17۔ مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف رحمه الله فرماتے ہیں:

یہ وہ معجزہ ہے جو اہل مکہ کے مطالبے پر دکھایا گیا، چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے حتیٰ کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا۔ یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک ٹکڑا اس طرف ہو گیا۔ (صحيح بخاری، كتاب مناقب الأنصار، باب انشقاق القمر وتفسير سورة اقتربت الساعة، وصحيح مسلم كتاب صفة القيامة، باب انشقاق القمر) جمہور سلف وخلف کا یہی مسلک ہے (فتح القدیر) امام ابن کثیر لکھتے ہیں علماء کے درمیان یہ بات متفق علیہ ہے کہ انشقاق قمر نبی ﷺ کے زمانے میں ہوا اور یہ آپ ﷺ کے واضح معجزات میں سے ہے، صحیح سند سے ثابت احادیث متواترہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔

(تفسیر احسن البیان: سورۃ القمر 54: آیت 01: صفحہ 1558)

18۔ مفسر قرآن شیخ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمه الله فرماتے ہیں:

“انشقاق قمر” کے بارے میں جمہور علمائے امت کی رائے ہے کہ نبی کریم ﷺ کے مکی دور میں ہجرت سے تقریباً پانچ سال قبل نبی کریم ﷺ کے ایک عظیم معجزہ کے طور پر چاند دو ٹکڑے ہو کر جبل حراء کے دونوں طرف ہوگیا تھا اور بیچ میں پہاڑ آگیا تھا۔ قاضی عیاضؒ نے مفسرین اور اہل سنت کا اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اس مضمون کی حدیثیں متواتر ہیں۔ ابن قتیبہؒ نے اپنی کتاب “تاویل مختلف الحدیث” میں لکھا ہے کہ نظام معتزلی نے ان احادیث کا بغیر دلیل انکار کیا ہے۔ زمخشری، بیضاوی اور ابوالسعود نے عطاء سے بھی اس طرح کا قول نقل کیا ہے، نظام نے کہا ہے کہ چاند قیامت کے دن پھٹے گا اس رائے کی بنیاد انکار سنت پر ہے۔
بخاری ومسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے انس رضی الله عنہ سے روایت کی ہے کہ اہل مکہ نے آپ ﷺ سے اپنے نبی ہونے کی نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے چاند کے دو ٹکڑے کر دکھائے، یہاں تک کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا۔
بخاری ومسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا اس کے نیچے آگیا تھا آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا: “دیکھو یا گواہ رہو”
اور مسلم و ترمذی نے انس رضی الله عنہ سے روایت کی ہے کہ اسی معجزہ کے ظہور کے بعد آیت نازل ہوئی تھی۔
اور امام احمدؒ، ترمذیؒ اور حاکمؒ وغیرہم نے جبیربن مطعم رضی الله عنہ سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے عہد میں تھے کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا تھا ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر اور دوسرا ٹکڑا دوسرے پہاڑ پر، تو لوگ کہنے لگے کہ محمد نے ہم پر جادو کردیا ہے، ایک شخص نے کہا کہ اگر اس نے تمہیں مسحور کردیا ہے تو وہ تمام لوگوں کو مسحور نہیں کرسکے گا۔ یعنی اگر تمہارے علاوہ دوسروں نے بھی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے تو تمہاری بات صحیح نہیں ہوگی کہ اس نے تم پر جادو کردیا ہے، بلکہ یہ اس کا معجزہ ہوگا۔

(تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن: سورۃ القمر 54: آیت 01: صفحہ 1499،1500)

19۔ مفسر قرآن شیخ ابونعمان سیف الله خالد حفظه الله فرماتے ہیں:

نبی کریم ﷺ کے مکی دور میں ہجرت سے تقریباً پانچ سال قبل نبی کریم ﷺ کے ایک عظیم معجزہ کے طور پر چاند دو ٹکڑے ہو کر جبل حرا کے دونوں طرف ہوگیا تھا اور بیچ میں پہاڑ آگیا تھا، جیسا کہ سیدنا عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت چاند پھٹا اس وقت ہم نبی ﷺ کے پاس منیٰ میں موجود تھے۔ چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا تو آپ نے فرمایا: گواہ رہو، گواہ رہو۔ (بخاری ومسلم)
سیدنا انس رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ مکہ والوں نے رسول الله ﷺ سے درخواست کی کہ کوئی نشانی دکھائے، تو اس پر آپ نے انھیں دوبار چاند کا پھٹ جانا دکھایا۔ (بخاری ومسلم)
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول الله ﷺ کے دور میں چاند پھٹا تو اس کے دو ٹکڑے ہو گئے، ایک ٹکڑے نے پہاڑ کو ڈھانپ لیا اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر رہا۔ تو اس وقت رسول الله ﷺ نے فرمایا: اے الله! تو گواہ رہ۔ (صحیح مسلم)

(تفسیر دعوۃ القرآن: سورۃ القمر 54: آیت 01: صفحہ 272)

20۔ مولانا ابوالکلام آزاد رحمه الله فرماتے ہیں:

علمائے امت کے ایک بڑے گروہ نے اسے آپ ﷺ کے معجزات میں شمار کیا ہے۔

(ترجمان القرآن: سورۃ القمر 54: آیت 01: جلد 03: صفحہ 403)

21۔ مفسر قرآن شیخ حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمه الله فرماتے ہیں:

صحیح احادیث سے بھی چاند کا پھٹنا ثابت ہے اور یہ واقعہ اتنی کثیر سندوں کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اکثر محدثین و مفسرین اسے متواتر قرار دیتے ہیں۔
ابن کثیر رحمه الله نے فرمایا: “چاند پھٹنے کے واقعہ پر علماء کا اتفاق ہے کہ یہ نبی ﷺ کے زمانے میں ہو چکا ہے اور یہ آپ ﷺ کے حیران کن معجزات میں سے ایک تھا۔” ابن کثیر رحمه الله نے اس مقام پر بہت سی احادیث نقل فرمائی ہیں، یہاں چند احادیث نقل کی جاتی ہیں:

(1) عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں آپ ﷺ کے زمانے میں چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا، ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا اور ایک ٹکڑا اس کی دوسری جانب۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: گواہ ہو جاؤ۔ (صحیح بخاري، التفسیر، باب: وانشق القمر…)
(2) ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا: آپ ﷺ کے زمانے میں چاند پھٹ گیا۔ (صحیح بخاري، التفسیر، باب: وانشق القمر…)
(3) انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں: اہلِ مکہ نے آپ ﷺ سے کوئی معجزہ دکھانے کا سوال کیا تو آپ ﷺ نے انھیں چاند کا پھٹنا دکھایا۔ (صحیح بخاري، التفسیر، باب: وانشق القمر…)
(4) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مکہ میں چاند پھٹ گیا، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو گیا تو مکہ والے کفارِ قریش کہنے لگے: یہ جادو ہے جو ابن ابی کبشہ نے تم پر کر دیا ہے، جو لوگ سفر میں گئے ہوئے ہیں ان کا انتظار کرو، اگر انھوں نے وہ دیکھا ہے جو تم نے دیکھا ہے تو اس نے واقعی سچ کہا ہے اور اگر انھوں نے وہ نہیں دیکھا جو تم نے دیکھا ہے تو یہ جادو ہے جو اس نے تم پر کر دیا ہے۔ فرمایا: تو سفر سے آنے والوں سے پوچھا گیا جو ہر جانب سے آ رہے تھے تو انھوں نے بتایا کہ ہم نے اسے دیکھا ہے۔ تفسیر ابنِ کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے اس پر لکھا ہے کہ ابن کثیر نے فرمایا: اسے ابن جریر نے بھی روایت کیا ہے اور یہ الفاظ زائد بیان کیے ہیں: یعنی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ (دلائل النبوۃ للبیہقي: و سندہ صحیح)
(5) بعض واعظ حضرات بیان کرتے ہیں کہ چاند رسول اللہ ﷺ کی انگلی کے اشارے سے دو ٹکڑے ہوا، انگلی کے اشارے کا کوئی ثبوت نہیں۔ اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ چاند کا ایک ٹکڑا آپ کے گریبان سے ہو کر نکل گیا، بالکل ہی لغو بات ہے۔
(6) انشقاقِ قمر پر کیے جانے والے شبہات اور اعتراضات کے متعلق مفسر عبدالرحمٰن کیلانی رحمه الله کا کلام بہت عمدہ ہے، وہ یہاں نقل کیا جاتا ہے: آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت اور انشقاقِ قمر کا باہمی تعلق یہ ہے کہ انشقاقِ قمر قربِ قیامت کی ایک نشانی ہے جو واقع ہو چکی ہے، لہٰذا اسے بس اب قریب ہی سمجھو۔ جب کفار نے اپنی آنکھوں سے یہ معجزہ دیکھ لیا تو کہنے لگے کہ یا تو چاند پر جادو کر دیا گیا ہے یا ہماری نظروں پر جو ہمیں ایسا نظر آنے لگا ہے۔ اس حیرانی میں ایک شخص نے کہا کہ اگر ہماری نظر بند کر دی گئی ہے تو آس پاس کے لوگوں سے پوچھ لو۔ چنانچہ آس پاس کے لوگوں نے اس کی تصدیق کر دی، مگر یہ کافر اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے۔ اس آیت پر منکرین معجزات کئی طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ پہلا اعتراض معنی کی تاویل سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صیغۂ ماضی کا معنی استقبال میں لیا جائے گا اور معنی یہ ہو گا کہ “جب قیامت قریب آ جائے گی اور چاند پھٹ جائے گا۔” جیساکہ “اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ” اور اس جیسی دوسری آیات کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تاویل اور دلیل اس لیے غلط ہے کہ جہاں قیامت کے حوادث کا ذکر آیا ہے، مثلاً آسمان پھٹ جائے گا، ستارے بے نور ہو جائیں گے اور جھڑنے لگیں گے، زمین پر سخت زلزلے آئیں گے، پہاڑ اڑتے پھریں گے وغیرہ، وہاں ان باتوں کو کفار کے سحر کہنے کا کوئی تعلق نہیں اور نہ قرآن میں ایسی آیات کے ساتھ سحر کا ذکر آیا ہے۔ کافروں کا چاند کے پھٹنے کو جادو کہنا اور اس پر کفار کی تکرار ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ایک حِسّی معجزہ تھا جو وقوع پذیر ہو چکا ہے۔

(تفسیر القرآن الکریم: سورۃ القمر 54: آیت 01: جلد 04: صفحہ 509،510)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ابو محمد عاصم

یہ بھی پڑھیں: مولانا ابو تقی حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ