مولانا محمد رفیق الاثری رحمہ اللہ کا تعارف

تذکرہ محدث العصر المفتی فضیلۃ الشیخ العالی محمد رفیق الاثری رحمہ اللہ

 نام، نسب اور پیدائش:

🔸 شیخ مکرم رحمہ اللہ کے اپنے بیان کے مطابق انکی پیدائش پنجاب الہند کی ایک بستی رشیداں والا میں سن 1937ء کو ہوئی. والدین نے نام محمد رفیق رکھا تھا. جب تعلیمی میدان میں آئے تو انہوں نے اپنے نام کے ساتھ الاثری کا اضافہ فرمایا.
🔸 الاثری، اثر کی طرف منسوب ہے جس کا لغوی معنی “نقل کرنا” ہے جبکہ اصطلاحی معنی حدیث ہے یعنی وہ فعل، قول، صفت یا تقریر جو رسول اللہ ﷺ سے منقول ہو. شیخ مکرم رحمہ اللہ نے حدیث سے گہری محبت اور لگاؤ کی وجہ سے اپنی یہ نسبت متعین فرمائی.
🔸 والد کا نام قائم دین بن علی شیر تھا آباء میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے کا نام طیب تھا اسلام میں سلسلہ نسب یوں ہے: محمد رفیق بن قائم دین بن علی شیر بن فرید بن طیّب.

طلب علم:

🔸 شیخ مکرم رحمہ اللہ کی نشأت اور تربیت ایک دیندار اور نیک خاندان میں ہوئی. قرآن مجید ابتداءً ہندوستان میں ہی مولانا حافظ غلام نبی صاحب رحمہ اللہ سے پڑھا جبکہ ناظرہ تکمیل قرآن پاکستان میں آ کر حافظ خوشی محمد صاحب رحمہ اللہ سے کی تھی.
🔸 لودھراں کے قریب براتی والا کے ایک پرائیویٹ سکول میں مولانا عبدالرحمٰن صاحب رحمہ اللہ سے پرائمری کلاس تک تعلیم حاصل کی جس میں فارسی اور خوشخطی بھی سیکھی.
🔸 علوم اسلامیہ کی تعلیم کیلئے دارالحدیث المحمدیہ جلالپور پیر والا ضلع ملتان میں داخل کرایا گیا جہاں سے 1956ء میں سند فراغت حاصل کی اور اسی سال ہی مولوی فاضل کا امتحان دیا.
🔸 شیخ مکرم رحمہ اللہ 1954ء، 1955ء اور 1956ء کی چھٹیوں میں لاہور کے ایک ادارے تقویۃ الاسلام جاتے رہے جہاں پہ شیخ مولانا شریف اللہ سواتی صاحب رحمہ اللہ سے منطق اور فلسفہ پڑھتے رہے.

تدریس:

1956ء میں فراغت کے بعد شیخ مکرم رحمہ اللہ نے اپنے استاذ شیخ الحدیث سلطان محمود محدث جلالپوری رحمہ اللہ کے حکم سے دارالحديث المحمدیہ جلالپور پیر والا میں ہی تدریسی فرائض کو اپنے ذمہ لیا جسے تا حیات نبھاتے رہے.

انداز تدریس:

1️⃣ شیخ مکرم رحمہ اللہ کا اندازِ تدریس نہایت سہل اور شیریں تھا.
2️⃣ باریک اور دقیق بات کو عمدہ اور آسان انداز میں سمجھا دیتے تھے.
3️⃣ احادیث اور ترجمۃ الباب میں مطابقت پہ خصوصی توجہ فرماتے تھے.
4️⃣ فقہی مسائل میں بین المسالک کے حوالے سے محدثین کے طرز پر چلتے تھے.
5️⃣ رجال کا تعارف دیتے تھے اور معاون کتب کی طرف توجہ دلاتے تھے.
6️⃣ صفات الٰہیہ کے متعلق اہل سنت و الجماعت یعنی محدثین کے موقف کو دلائل سے بیان کر کے فِرق ضالّہ کی تردید کرتے تھے.
نوٹ: اس متعلق مزید معلومات آئندہ صفحات میں “اساتذہ کو نصیحت” کے عنوان کے تحت آ رہی ہیں.

سادگی:

🔸 شیخ مکرم رحمہ اللہ سادگی کے پیکر تھے گھر کا ماحول سادہ تھا اور کھانا پینا سادہ استعمال کرتے تھے فضیلۃ الشیخ ابونعمان بشیر صاحب حفظہ اللہ بروایت فضیلۃ الشیخ ابوعمار عمر فاروق السعیدی حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے طالب علمی دور میں جامعہ میں شیخ مکرم رحمہ اللہ کا بیٹا گھر سے سبزی کے پیسے لینے کیلئے آیا شاید اس وقت انکے پاس پیسے موجود نہیں تھے تو بیٹے سے کہنے لگے کہ اپنی امی سے کہو لال مرغ پکا لیں بیٹا چلا گیا بعد میں طلبہ نے استفسار کیا کہ کیا گھر میں مرغیاں بھی پال رکھی ہیں ؟ تو فرمایا کہ اس سے میری مراد یہ تھی کہ لال مرچ پیس کر چٹنی بنا کر گزارہ کر لیں.
🔸 اور لباس سادہ اور سفید رنگ کا پہنتے تھے اور فرماتے کہ حدیث میں یہی حکم ملا ہے “الْبَسُوا مِنْ ثِيَابِكُمُ الْبَيَاضَ ؛ فَإِنَّهَا مِنْ خَيْرِ ثِيَابِكُمْ” کہ سفید کپڑے پہنا کرو کیونکہ یہ بہترین لباس ہے. (سنن ابی داؤد : 3878).
🔸 کوئی جماعتی یا طالب علم ، نکاح یا جنازہ پڑھانے کیلئے کہتے تو فوراً چلے جاتے تھے اسی طرح مختلف مساجد میں امتحان لینے کیلئے بلایا جاتا تو بغیر کسی تردد کے چلے جاتے تھے.
ایک بار خانبیلہ تحصیل جلالپور پیر والا میں نورانی قاعدہ کے طالب علم کا امتحان لیتے وقت قاری محمد اسماعیل ساجد صاحب حفظہ اللہ ابن الشیخ عبدالغفار محمدی رحمہ اللہ نے شیخ مکرم رحمہ اللہ کی تصویر بنا کر فیسبک پہ ڈال دی یہ تصویر دیکھ کر سندھ کے کچھ احباب کہنے لگے کہ : وقت کا اتنا عظیم محدث ہو اور نورانی قاعدہ کے طالب کا امتحان لے رہا ہو دل نہیں مانتا ضرور اس تصویر میں ایڈیٹنگ ہوئی ہے.

ورع اور تقویٰ:

🔸 شیخ مکرم رحمہ اللہ باقاعدگی سے تہجد اور قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے تھے. فضیلۃ الشیخ پروفیسر سعید مجتبی السعیدی حفظہ اللہ کا بیان ہے کہ مجھے سردی کے موسم میں ایک بار شیخ مکرم رحمہ اللہ کے پاس ان کے کمرے میں رات گزارنے کا موقع ملا شیخ مکرم رحمہ اللہ کے پوتوں کا روٹین تھا کہ وہ سونے سے قبل انکے پاس جمع ہو کر دینی باتیں اور واقعے سنا کرتے. اس رات انہوں نے مجھے بیان کرنے کو کہا میں نے انھیں کچھ دینی باتیں سنائیں اور ہم سو گئے اذان فجر سے کافی دیر قبل ہم بیدار ہوئے وضو کیلئے شیخ مکرم رحمہ اللہ کی بہو (زوجہ الشیخ اسامہ رفیق اثری حفظہ اللہ) نے پانی گرم کر کے بھیجا تو ہم نے وضو کیا اور بقدر وسع تہجد پڑھی. اھ
🔸 درس بخاری میں بعض اوقات قرآن کی کسی ایسی آیت کا ذکر ہوتا جس کی انہوں نے اسی دن تلاوت کی ہو تو فرماتے کہ آج صبح میری تلاوت میں بھی یہ آیت گزری ہے. اس سے انکی تلاوت کے روٹین کے ساتھ ساتھ قرآن کو تدبر تفکر سے پڑھنے کا پتہ بھی چلتا ہے اور طلباء کو یہ بتانے میں تلاوت کی طرف شوق و رغبت دلانا مقصود ہوتا تھا.
🔸 شیخ مکرم رحمہ اللہ نے ایک بار مجھے بتایا کہ کئی لوگ مجھے کتابوں کا تحفہ دے جاتے ہیں ، چونکہ لوگوں میں میری معرفت مدرسہ کے واسطے سے ہے اور یہ تحائف اسی معرفت کے بلبوتے دئے جاتے ہیں تو اسی لئے میں کتب کی صورت میں ملنے والے ان تحائف کو مدرسہ کی لائبریری کا استحقاق سمجھ کر لائبریری میں ہی جمع کر دیتا ہوں ان کتب میں سے کوئی کتاب بھی میرے ذاتی کتب خانہ میں موجود نہیں ہے.

ذوقِ مطالعہ:

🔸 جب کوئی علمی کتاب شیخ مکرم رحمہ اللہ کے سامنے آتی تو اول تا آخر اسے پڑھ ڈالتے تھے اور اہم باتوں کے صفحات نمبر اور عنوان کے اشارے کتاب کے اوّل میں خالی صفحہ پر تحریر فرما دیا کرتے تھے.
🔸 ایک بار امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب جامع المسائل تقریباً 8 یا 9 جلدوں پہ مشتمل لائبریری میں آئی تو چند دنوں بعد شیخ مکرم رحمہ اللہ نے بتایا کہ وہ میں نے مکمل پڑھ لی ہے. اور میں دیکھا واقعی تمام جلدوں کے اول صفحہ پر اہم عناویں کے اشارے بمع صفحات نمبر لکھے ہوئے ہیں.
🔸 شیخ مکرم رحمہ اللہ کے بیٹے الشیخ اسامہ رفیق الاثری حفظہ اللہ کا بیان ہے کہ آخری سالوں کی بات ہے کہ میں اور ابّا جی گاڑی میں سفر کر رہے تھے اسی دوران میں نے بطور مزاح کہا کہ اباجی : ہم آپکی شادی کراتے ہیں تو وہ فرمانے لگے کہ میں نے کتابوں سے شادی کر رکھی ہے وہ فرصت نہیں دیتی اھ
اس سے انکی مراد کتابوں کی گہری محبت اور ان کے مطالعہ کا شغف تھا.
🔸 رسالہ اہل حدیث اور الاعتصام باقاعدگی سے منگواتے اور بڑے شوق سے پڑھتے تھے.
رسالہ آتے ہی مکمل پڑھ لیتے اور ساتھ بیٹھے طالب کو دیتے کہ مطالعہ کر کے دے جانا.
🔸 شیخ مکرم رحمہ اللہ روزانہ اخبار کا مطالعہ لازمی کرتے تھے اگر لیٹ ہو جاتا تو انتظار میں بے تاب رہتے. اور طلباء کو بھی رغبت دلاتے کہ اخبار پڑھا کرو اس سے حالات کی خبر رہتی ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے.

اساتذہ:

شیخ مکرم رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل اساتذہ کرام سے فیض حاصل کیا:
1: حافظ غلام نبی صاحب رحمہ اللہ. 2: حافظ نور محمد صاحب رحمہ اللہ. 3: حافظ خوشی محمد صاحب رحمہ اللہ. 4: مولانا عبدالرحمٰن صاحب رحمہ اللہ. 5: مولانا شریف اللہ سواتی صاحب رحمہ اللہ. 6: الشیخ مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری رحمہ اللہ. 7: مولانا عبدالحمید صاحب رحمہ اللہ. 8: مولانا عبدالقادر بہاولپوری صاحب رحمہ اللہ. 9: مولانا عبدالرحیم عارف صاحب رحمہ اللہ. 10: مولانا محمد قاسم شاہ صاحب رحمہ اللہ. 11: مولانا عبدالقادر مہند صاحب رحمہ اللہ. 12: مولانا عبداللہ مظفر گڑھی صاحب رحمہ اللہ. 13 : مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی صاحب رحمہ اللہ.

تلامذہ:

تلامذہ کی لمبی فہرست ہے جن کا شمار ممکن نہیں ہے چند معروف تلامذہ کا نام ذکر کیا جاتا ہے.
1: مفسر قرآن الشیخ اللہ یار صاحب رحمہ اللہ. 2: الشیخ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ. 3: الشیخ عبدالرحمٰن چیمہ صاحب حفظہ اللہ. 4: الشیخ عمر فاروق السعیدی صاحب حفظہ اللہ. 5: الشیخ پروفیسر سعید مجتبی السعیدی صاحب حفظہ اللہ. 6: الشیخ عبدالغفار اعوان صاحب حفظہ اللہ. 7: الشیخ ادریس اثری صاحب حفظہ اللہ. 8: الشیخ ابو نعمان بشیر صاحب حفظہ اللہ. 9: الشیخ عبدالرحمن شاہین صاحب حفظہ اللہ. 10: الشیخ عبدالرشید ریاستی صاحب حفظہ اللہ. 11: الشیخ انس سلفی صاحب حفظہ اللہ. 12: الشیخ اسامہ رفیق الاثری صاحب حفظہ اللہ. 13: الشیخ عبدالحمید عابد صاحب حفظہ اللہ.

14: الشیخ مشتاق صاحب حفظہ اللہ. 15: الشیخ عبدالمنان اثری صاحب حفظہ اللہ. 16: الشیخ ریاض عاقب اثری صاحب حفظہ اللہ. 17: الشیخ عبدالمنان شورش صاحب حفظہ اللہ. 18: الشیخ ضیاءالرحمن خلیل صاحب حفظہ اللہ. 19: الشیخ ثناءاللہ توحیدی صاحب حفظہ اللہ. 20: راقم الحروف احقر العباد محمد فہد محمدی. 21: الشیخ ضیاءالرحمن فاروقی صاحب حفظہ اللہ.

علمِ حدیث پہ تصنیفات:

شیخ مکرم رحمہ اللہ سے ایک بار سوال ہوا کہ آپ کا پسندیدہ موضوع کونسا ہے تو فرمایا کہ: حدیث اور اس سے متعلقہ علوم.
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان علوم کی تدریس کے ساتھ ساتھ اپنی تصنیفات کے شاہکار بھی تیار کیے ہیں ان کا ذکر ملاحظہ فرمائیں.

🔸1: الکوثر الجاری شرح صحیح البخاری:
شیخ مکرم رحمہ اللہ نے اپنی آخری عمر صحیح بخاری پہ کام شروع کیا جس کا نام انہوں نے “الکوثر الجاری شرح صحیح البخاری” تجویز فرمایا.
اس میں درج ذیل امور کا لحاظ فرمایا.
(1) اس میں انہوں نے سند میں موجود رواۃ کے اسماء، کنیٰ اور القاب کے ذریعے تعارف پیش کرنے کا اہتمام فرمایا.
(2) مغلق مقامات کی توضیح و تشریح فرمائی.
(3) احادیث کی ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت جوڑنے کا اعتناء کیا.
(4) طوالت سے اجتناب کیا لیکن ضروریات کا مکمل حل فرمایا.
لیکن افسوس کہ یہ کام شیخ مکرم رحمہ اللہ کی وفات کے باعث مکمل نہ ہو سکا.
شیخ مکرم رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ عموماً مدارس میں کتب احادیث کے وہ نسخے رائج ہیں جن پہ احناف کے حواشی چڑھے ہوئے ہیں کم از کم سلفی مدارس میں ان کی بجائے سلفی حواشی والے نسخے رائج ہونے چاہئیں. انہوں نے یہ ذہن اس وقت سے بنایا جب سے فضیلۃ الشیخ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے انھیں توجہ دلائی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کتب احادیث پہ سلفی حاشیہ کیلئے اپنا کام شروع کیا جن میں سے “الضوء السالک حاشیہ علی موطا الامام مالک” اور “التعلیق النجیح علی مشکوۃ المصابیح” منظر عام پہ آ چکی ہیں اور مدارس میں درسی نسخوں کے طور پہ رائج ہیں.
پھر صحیح بخاری پہ کام شروع کیا تھا لیکن وقت نے ساتھ نہ دیا علالت کے باعث داعی اجل کو لبیک کہہ کر چلے گئے.
🔸 2: الضوء السالک حاشیہ علی موطا الامام مالک:
یہ نسخہ بحمد اللہ شیخ مکرم رحمہ اللہ کی خواہش کے مطابق اب درسی نسخہ کے طور پر مدارس میں رائج ہے جس سے اساتذہ اور طلباء مستفید ہوتے رہتے ہیں.
اس کتاب میں شیخ مکرم رحمہ اللہ نے جن امور کا اہتمام کیا ہے وہ مندجہ ذیل ہیں:
(1) مقطوع احادیث اور بلاغات مرفوعہ کی کی نشاندہی کی ہے.
(2) اہم مقامات پر فقہ الحدیث کے استنباط کا اہتمام فرمایا.
(3) فرعی احکام میں محدثین کے مسلک کی تائید فرمائی.
(4) مشکل الفاظ کے معانی کی وضاحت و تبیین فرمائی تاکہ طلاب حدیث پہ ان کا فہم آسان ہو جائے.
(5) موطا میں امام مالک رحمہ اللہ کی اصطلاحات کی تعریف و توضیح.
(6) فقہ اور احکام میں امام مالک رحمہ اللہ کے اقوال کی تشریح.
شیخ مکرم رحمہ اللہ نے اس عظیم کام میں قاضی ابو الولید الباجی، امام ابو عمرو بن عبدالبر اور ان کے علاوہ کئی شراح حدیث اور فقہاء عظام کی کتب سے استفادہ فرمایا.
اس حاشیہ کا نام “الضوء السالک” فضیلۃ الشیخ المحدث بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے تجویز فرمایا.
ایک بار شیخ مکرم رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ آپ نے “الضوء السالک” میں روایات کی صحت و ضعف پہ کام کیوں نہیں کیا تو انہوں نے فرمایا کہ: میں نے موطا کی مرفوع روایات کی اسانید میں امام مالک رحمہ اللہ پہ اعتماد کیا ہے وہ بہت بڑے امام ہیں اور جن کی سندیں انہوں نے دی ہیں وہ بھی معروف و مشہور سندیں ہیں. اور جن کی سندیں معلق کر رہے ہیں ان کے بارے میں بھی جمہور محدثین کی رائے یہ ہے کہ وہ صحیح ہیں سوائے چار روایات کے لیکن امام ابن الصلاح رحمہ اللہ نے ان کی بھی تحقیق کر دی ہے.
البتہ آثار صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین عظام رحمہم اللہ کی تحقیق و تخریج میں اس وقت نہیں کر سکا.
اب میں نے موطا کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے اس میں آثار کی تحقیق و تخریج بھی کر دی ہے.
🔸 3: اردو ترجمہ موطا الامام مالک:
یہ ترجمہ شیخ مکرم رحمہ اللہ نے عام فائدہ کیلئے تحریر فرمایا ہے جس سے علماء، طلباء اور مدرسین کے ساتھ ساتھ عام پبلک بھی مستفید ہو رہی ہے.
اس میں انہوں نے مندرجہ ذیل امور کو ملحوظ رکھا.
1️⃣ احادیث و اقوال کا سلیس اردو ترجمہ.
2️⃣ احادیث ، آثار صحابہ و تابعین کی تخریج.
3️⃣ مغلق مقامات کی وضاحت.
4️⃣ مشکل الفاظ کی تشریح.
5️⃣ بعض اہم اختلافی مسائل کا محدثین کے طرز پہ دلائل سے بیان اور راجح موقف کی نشاندہی.
اس کتاب کی نظر ثانی شیخ مکرم رحمہ اللہ کے ہی تلمیذ ارشد فضیلۃ الشیخ پروفیسر سعید مجتبی السعیدی حفظہ اللہ آف منکیرہ ضلع بھکر نے کی اور انہوں نے ہی اول کتاب میں امام مالک رحمہ اللہ کے سوانح عمری و حالات کے نام سے امام حافظ ابو عمر یوسف بن عبدالبر القرطبی رحمہ اللہ المتوفی 463ھ کی کتاب “الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الائمۃ الفقہاء” میں سے امام مالک رحمہ اللہ کے حالات کا ترجمہ شامل فرمایا ہے.
🔸 4: التعلیق النجیح علی مشکوۃ المصابیح:
یہ تعلیقات شیخ مکرم رحمہ اللہ کی عرصہ دراز کی محنت کا ثمرہ ہے جس کی تحقیق و تفتیش میں سالوں صرف ہوئے ہیں. وہ خود فرماتے ہیں کہ خاص طور پر احادیث کی تخریج میں عرق ریزی سے کام لینا پڑتا تھا آج کل کا ڈیجیٹل سرچنگ سسٹم تو موجود نہیں تھا کہ منٹوں میں تخریج کی جا سکتی.
حدیث کی تخریج کرنے میں مختلف کتب میں مسانید کی ترتیب سے یا فقہی احکام کی ترتیب احادیث تلاش کرتا تھا جب حدیث کسی کتاب میں مل جاتی تو خوشی سے یوں محسوس ہوتا کہ جسم میں سوا سیر خون بڑھ گیا ہے.
فرماتے ہیں کہ انھیں دنوں میری زوجہ محترمہ نے گھریلو معاملات کے حوالے سے میرا بہت ساتھ دیا اللہ اسے جزائے خیر دے. بچوں کو وہ خود سنبھالتی میری کمی محسوس نہ ہونے دیتی. دیگر امور میں بھی کفایت شعاری سے کام لیتی تھی جس سے میں علمی اور تحقیقی میدان میں بآسانی کام کر سکتا تھا.
اس کتاب کی تصنیف میں بھی شیخ مکرم رحمہ اللہ کا مقصد سلفی مدارس میں حدیث کی کتاب پہ سلفی حاشیہ والے نسخہ کو رائج کرنا تھا جو کہ بحمد اللہ پورا ہوا.
اس تعلیق میں شیخ مکرم رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل امور کو ملحوظ رکھا.
(1) ہر حدیث کا حوالہ مطبوعہ نسخے (جو کہ عام طور پہ مدارس میں زیر تدریس ہیں) سے دیا گیا ہے.
(2) حوالہ میں کتاب اور باب کی نشاندہی کے ساتھ صفحہ بھی لکھا گیا ہے.
(3) ہر حدیث کا رقم الحدیث بھی تحریر کر دیا گیا ہے تاکہ وہ لوگ بھی اصل ماخذ کی طرف بآسانی مراجعت کر سکیں جن کے پاس ترقیم پہ مشتمل نسخے ہیں.
(4) محدثین کے فقہی انداز کی نشاندہی سے یہ غرض بھی ہے کہ حدیث سے استنباط مسائل کا ملکہ پیدا ہو اور طلبہ اس طرف متوجہ ہوں.
(5) مشکل الفاظ کا لغوی، صرفی اور نحوی حل بھی کیا گیا ہے تاکہ فہم حدیث میں آسانی ہو.
(6) اصل متن کتاب کی تصحیح میں محقق نسخوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے.
(7) صاحب مشکوۃ کے بیان کردہ مآخد کے علاوہ بھی حدیث کی تخریج کی گئی ہے.
(8) فصل ثانی اور فصل ثالث کی احادیث کی استنادی حیثیت بھی محدثین کی آراء کی روشنی میں متعین کی گئی ہے تاکہ قاری ہر متن کو اس کا مقام دے سکے.
(9) کتاب میں مندرجہ احادیث کی ترقیم نسخہ البانی کے مطابق ہے.
(10) اختلافی مسائل میں اختصار کے ساتھ فقہاء کے مسالک کی نشاندہی اور راجح مسلک کی تائید مدلل طریق سے کی گئی ہے.
(11) تعلیقات میں شروح کتب احادیث بالخصوص “التمھید شرح موطا الامام مالک، المنتقی للباجی، شرح النووی لصحیح مسلم، فتح الباری لابن حجر، شرح المشکوۃ للطیبی، مرقاۃ المفاتیح، تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی، عون المعبود شرح سنن ابی داؤد، مرعاۃ المفاتیح، حواشی الشیخ الالبانی اور تنقیح الرواۃ وغیرہ اور کتب لغت سے استفادہ کیا گیا ہے.
اس تعلیق پہ کافی کام ہو چکا تھا جب فضیلۃ الشیخ المحدث محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ جلالپور تشریف لائے. یہ کام دیکھا تو تحسین فرمائی اور اس وقیع تعلیق کا نام “التعلیق النجیح علی مشکوۃ المصابیح” تجویز فرمایا.
شیخ مکرم رحمہ اللہ سے ایک بار سوال ہوا کہ آپ نے “التعلیق النجیح” میں امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی تحقیق پہ بہت اعتماد کیا ہے تحقیقی میدان میں الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی بہت کام کیا ہے انکی تحقیق پہ آپ کیا فرمائیں گے؟ کیونکہ انہوں نے کئی مقامات پہ امام البانی سے اختلاف بھی کیا ہے.
تو شیخ مکرم رحمہ اللہ نے جواباً فرمایا کہ مجموعی طور پر ان کا کام عمدہ ہے الحمدلله رجال پہ ان کی گہری نظر ہے خوب بحث کرتے ہیں اور حق ادا کرتے ہیں لیکن ہمیں ان سے تھوڑا سا اختلاف ہے زیادہ نہیں ہے بس تھوڑا سا ہی ہے وہ یہ کہ ایک روایت کو ایسا راوی بیان کرتا ہے جس پہ ہلکی سی جرح ہو اگر اسکی تائید دوسری ایسی روایت سے ہو رہی ہو جس میں کچھ کمزوری ہو اور تیسری ایسی روایت سے بھی تائید مل جائے جو کچھ کمزور ہے تو ایسی روایت کے متعلق ان کا موقف ہے کہ یہ ساری جلی رسیاں ہیں ضعیف + ضعیف + ضعیف + ضعیف = ضعیف.
لیکن ہم اس موقف کو درست نہیں سمجھتے. ایسی روایت کے متعلق امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے بڑی وقیع بات کی ہے ان کا کہنا ہے کہ مختلف روایات جب جمع ہو جائیں اور ان میں ہلکی ہلکی کمزوری ہو (مطلب یہ ہے کہ وہ منکر یا موضوع کی حد تک نہ پہنچے) تو وہ مجموعی حیثیت سے حسن لغیرہ کے درجے میں آ جاتی ہے لہذا اس پہ اعتماد ہو سکتا ہے. یہی نظریہ اور موقف شیخ الحدیث سلطان محمود محدث جلالپوری رحمہ اللہ کا تھا اور میں بھی اسی کی تائید کرتا ہوں.
🔸 5: تحقیق، تخریج و تعلیق علی إسبال المطر علی قصب السکر:
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کی کتاب نخبۃ الفکر فی مصطلح اہل الاثر محدثین کی اصطلاحات پہ مشتمل کتاب ہے جسے طلاب حدیث کے حفظ کی آسانی کیلئے امام محمد بن اسماعیل الیمانی رحمہ اللہ نے نظم و اشعار میں پرو دیا اور اسکا نام “قصب السکر” رکھا پھر اس کے معانی کی وضاحت کیلئے انہوں نے ایک شرح لکھی جس کا نام “إسبال المطر علی قصب السکر” رکھا اور شیخ مکرم رحمہ اللہ نے اسی کتاب پہ کام کیا ہے جس میں مندرجہ ذیل امور کا اعتناء فرمایا ہے:
(1) بقدر وسع نص کی ضبط و تحقیق.
(2) آیات و احادیث کی تخریج.
(3) جو مقامات تعلیق کے محتاج تھے ان پہ تعلیقات.
کتاب اسبال المطر علی قصب السکر کو اصل مخطوطہ سے پہلی بار شیخ مکرم رحمہ اللہ نے ہی نقل کر کے طباعت کے زیور سے آراستہ فرمایا.
شیخ مکرم رحمہ اللہ کے تلمیذ ارشد فضیلۃ الشیخ پروفیسر سعید مجتبی السعیدی حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ میرے طالب علمی دور میں اس کتاب پہ کام ہو رہا تھا ملتان سے اسکی کتابت ہوئی اور پروف ریڈنگ کیلئے شیخ مکرم رحمہ اللہ مجھے روزانہ بعد نماز عصر بلا لیا کرتے تو میں اور شیخ مکرم رحمہ اللہ مل کر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگا کر یہ عمل سر انجام دیتے تھے حتی کہ یہ کام اللہ کے فضل و کرم سے پایہ تکمیل تک پہنچا. اھ
اثری ادارہ نشر و تالیف کے بعد دارالسلام میں بھی اس کی طباعت ہوئی. جامعہ میں دونوں نسخے موجود ہیں.
🔸 6: التعلیقات الأثریة علي المقاصد المهمة من ألفية الحديث:
شیخ مکرم رحمہ اللہ کی یہ تعلیقات حافظ زین الدین ابوالفضل عبدالرحیم الشہیر بالامام العراقی کی ہزار اشعار پہ مشتمل کتاب المقاصد المہمۃ کی تشریح میں ہیں جس میں اصول حدیث کی اصطلاحات توضیح اور امثلہ سے بیان کی گئی ہیں.
اس کتاب کی طباعت شیخ مکرم رحمہ اللہ نے بذات خود اثری ادارہ نشر و تالیف کے تحت کرائی اور پھر بعد میں ان کے تلمیذ ارشد فضیلۃ الشیخ محمد افضل الاثری صاحب حفظہ اللہ نے مکتبہ امام بخاری منظور کالونی گجر چوک کراچی سے طبع. دونوں نسخے ادارہ میں موجود ہیں.
اس مطبوعہ کے امتیازات:
(1) شیخ مکرم رحمہ اللہ کا یہ نسخہ دہلی کے مطبوعہ نسخے سے، مصر کے مطبوعہ شرح الناظم سے اور الشیخ عبدالتواب السلفی الملتانی رحمہ اللہ کے دست سے تحریر کردہ قلمی نسخے سے مقابلہ شدہ ہے.
(2) اس میں نظم کی مشکلات کو حل کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے.
(3) قیل و یقال جیسے مجہول اقوال سے پرہیز کیا گیا ہے سوائے چند مقامات کے جہاں ضرورت پڑے تاکہ طلباء کو اس سے استفادہ میں آسانی ہو.
(4) اشعار و ابیات کی ترقیم اور فہرست کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ مراجعت میں آسانی ہو.
(5) معانی کی وضاحت کیلئے اشعار پر اعراب بالحرکت کا ضبط دیا گیا ہے.
(6) جن مقامات پر کاتب سے غلطی ہوئی تو اس کی تصحیح کر دی گئی ہے.
یہ کتاب شیخ مکرم رحمہ اللہ نے درساً بھی کئی سال تک پڑھائی لمبی اور گہری بات کو سہل انداز میں مختصر الفاظ میں اور مختصر وقت میں سمجھا دیتے تھے اور ذوق رکھنے والے طلباء کو متعلقہ فن کی دیگر کتب کی معلومات دینے کے ساتھ کتب مہیا بھی فرماتے تھے تاکہ فن کی مکمل دسترس حاصل ہو چنانچہ شیخ مکرم رحمہ اللہ کے تلمیذ ارشد فضیلۃ الشیخ پروفیسر سعید مجتبی السعیدی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں جب الفیۃ الحدیث شیخ مکرم رحمہ اللہ سے پڑھ رہا تھا تو میں اکثر سوال کیا کرتا تھا جس کا تسلی بخش جواب عنایت فرماتے. انہوں نے میرے ذوق کو دیکھ کر میرے علمی مطالعہ کیلئے اپنے ذاتی کتب خانہ سے ایک کتاب “معرفۃ علوم الحدیث للحاکم” مترجم مجھے دی تو میں نے الفیۃ الحدیث کے ساتھ اس کتاب کو بھی مکمل پڑھ ڈالا جس سے بہت فائدہ ہوا. اھ
شیخ مکرم رحمہ اللہ کے خلوص ، توجہ اور محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ پروفیسر صاحب نے فن اصول حدیث میں مہارت اور ذوق کی وجہ سے امام سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب “تدریب الراوی” کا اردو ترجمہ کیا.
🔷 شیخ مکرم کی علوم حدیث کے علاوہ دیگر مضامین پہ بھی تصانیف موجود ہیں جن کا اجمالاً تعارف پیش خدمت ہے.
🔸 7: اردو ترجمہ منہاج المسلم:
یہ الشیخ ابوبکر جابر الجزائری رحمہ کی عربی میں لکھی کتاب ہے جسے کا شیخ مکرم رحمہ اللہ نے اردو قالب میں ڈھالا ہے. اس میں عقائد ، عبادات و احکام سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے مسائل کا استیعاب کیا گیا ہے.
🔸 8: ترجمہ السیف المسلول : السیف المسلول قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ کی شیعہ کے متعلق فارسی میں لکھی کتاب جس کا شیخ مکرم رحمہ اللہ نے اردو ترجمہ کیا ہے.
فارسی نسخہ دہلی میں ایک بار چھپا تھا جو کہ تقریباً ناپید ہو گیا ہمیں نہ مل سکا. شیخ مکرم رحمہ اللہ نے مخطوطہ حاصل کیا جس میں ناموں کی کئی اغلاط تھیں جن کی حتی المقدور تصحیح کر دی گئی.
🔸 9: مناسک حج اردو ترجمہ ھدایۃ الناسک : ہدایۃ الناسک ایک عربی الشیخ عبید اللہ بن عبید کی تحریر کردہ.
🔸 10: تبیان الادلّۃ فی رؤیۃ الأھلّۃ کا اردو ترجمہ
🔸 11: فضائل و مسائل رمضان المبارک
🔸 12: مسائل قربانی
🔸 13: اردو ترجمہ شرح خطبہ حجۃ الوداع
🔸 14: نماز پڑھنے کا مسنون طریقہ
🔸 15: نماز جنازہ پڑھنے کا مسنون طریقہ
🔸 16: جہاد اور ہمارے فرائض
🔸 17: فقاہت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
🔸 18: مقام سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ
🔸 19: اہل حدیث کون
🔸 20: حیات خدمات آثار الشیخ سلطان محمود محدث جلالپوری رحمہ اللہ
🔸 21: تاریخ جلال پور
🔸 22: نصیحت نامہ شرح اردو پند نامہ

🟢 علم حدیث پہ تحریر کردہ وہ مقالہ جات جو طلباء نے شیخ مکرم رحمہ اللہ کی رہنمائی سے انکی زیر سرپرستی تحریر کیے:
شیخ مکرم رحمہ اللہ علم دوستی اور تحقیقی و تصنیفی ذوق کی وجہ سے جامعہ میں درجہ سابعہ و ثامنہ کے طلبہ کو تالیفی و تصنیفی کام ذمے لگایا کرتے تھے چنانچہ ان دو جماعتوں کیلئے انہوں نے باقاعدہ اصول بنا دیا کہ وہ کسی فن پہ اپنی علمی تحقیق اور سرچ ایک مقالہ کی صورت میں پیش کریں. یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے.
چونکہ طلبہ تصنیفی میدان میں ابھی نئے داخل ہوئے ہوتے تھے جس کی وجہ سے انھیں گائیڈ لائن اور رہنمائی کی ضرورت پڑتی تھی لہٰذا وہ شیخ مکرم رحمہ اللہ سے بہت استفادہ کیا کرتے تھے مثلاً متعلقہ مضمون کی کتب کا تعارف لینا، لائبریری سے کتب حاصل کرنا، چیدہ چیدہ مقامات پہ آ کر متعلقہ بحث کی تفصیل پوچھ لینا، تحریر و تصنیف کا انداز معلوم کرنا اور الفاظ کی درستگی کروانا وغیرہ اور شیخ مکرم رحمہ اللہ بھی بڑی دل چسپی سے رہنمائی فرمایا کرتے اور حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے.
مختلف علوم پر طلبہ کے سینکڑوں مقالہ جات بطور ریکارڈ جامعہ کی لائبریری کی زینت ہیں جن میں سے حدیث سے متعلقہ وہ مقالہ جات جو راقم الحروف کی نظر سے گزرے ہیں مندرجہ ذیل ہیں.
🔸 (1) تدوین حدیث از مولانا سیف الرحمن صاحب:
یہ 58 صفحات پہ مشتمل ہے جس میں مقالہ نگار نے “علم حدیث کا مقام ، جماعت محدثین پہ مشکلات اور ان کا صبر ، عہد نبوی ﷺ کے صحیفے ، عہد نبوی ﷺ سے عید محدثین تک احادیث کا گرانقدر سرمایہ ، حجیت حدیث اور منکرین کا تذکرہ اور انکا حل وغیرہ” ابحاث تحریر کی ہیں.
🔸 (2) حدیث و سنت کی شرعی و آئینی حیثیت:
اس عنوان سے تین افراد کے مقالے سامنے آئے 1: مولانا فیاض محمدی صاحب: ان کا مقالہ 64 صفحات پر مشتمل ہے. 2: مولانا محمد عمر فاروق صاحب : انکا مقالہ 52 صفحات پر مشتمل ہے. 3: مولانا محمد آصف صاحب : انکا مقالہ 50 صفحات پر مشتمل ہے.
مذکورہ عنوان کے تحت مقالہ نگاروں نے “حدیث کی اہمیت، حدیث اور سنت میں فرق، صحابہ کی نظر میں حدیث کا مقام، حدیث لکھنے کا ثبوت اور انسانی زندگی کی درستگی کیلئے حدیث کی اہمیت و ضرورت وغیرہ ابحاث ذکر کی ہیں.
🔸 (3) منکرین حدیث کے شبہات اور ان کا ازالہ:
اس عنوان سے دو افراد کے مقالے نظر سے گزرے ہیں. 1 : مولانا محمد ریاض احمد صاحب : ان کا مقالہ 68 صفحات پر مشتمل ہے. 2 : مولانا سجاد الرحمن صاحب : انکا مقالہ 80 صحات پہ مشتمل ہے.
مذکورہ عنوان کے تحت مقالہ نگاروں نے “فضیلت حدیث و اہلحدیث ، پیش گوئیاں ، منکرین حدیث کا تذکرہ ، انکے شبہات کا ذکر اور ازالہ وغیرہ” ابحاث ذکر کی ہیں.
🔸 (4) حجیت حدیث:
اس عنوان سے پانچ افراد کے مقالے نظر سے گزرے جن میں سے دو نے عربی میں تحریر کیا ہے 1: مولانا ظہور الحق سیاف صاحب: ان کا مقالہ 75 صفحات پر مشتمل ہے. 2 : مولانا محمد فضل حق صاحب : انکا مقالہ 54 صفحات پر مشتمل ہے.
اور تین افراد نے اردو میں تحریر کیا ہے.
1: مولانا محمد یحییٰ ماہڑہ صاحب: انکا مقالہ 104 صفحات پر مشتمل ہے. 2: مولانا محمد داؤد صاحب: ان کا مقالہ 50 صفحات پر مشتمل ہے. 3: مولانا سمان اوّاہ صاحب: ان کا مقالہ 47 صفحات پر مشتمل ہے.
مذکورہ عنوان کے تحت مقالہ نگاروں نے “حدیث کی حجّیت قرآن کریم سے، احادیث سے، اجماع، قیاس اور ائمہ کرام کے اقوال سے ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ حفظ حدیث کے مراتب ذکر کئے نیز منکرین کے اعتراضات کا رد کیا.
🔸 (5) اسلام میں حدیث کا مقام از مولانا منظور احمد صاحب:
مقالہ نگار نے حدیث کی اہمیت بیان کی ، اور وحی غیر متلو (حدیث) کی حجیت کا ثبوت دلائل دیا اور معترضین کے اعتراضات ذکر کر کے جوابات دئیے.
🔸 (6) علمائے اہلحدیث از مولانا عبداللطیف صاحب:
مقالہ نگار نے بڑے خوبصورت انداز سے ماضی قریب کے علمائے اہلحدیث کی حیات و خدمات کا تذکرہ کیا مثلا الشیخ میاں نذیر حسین دہلوی، الشیخ نواب صدیق حسن خان القنوجی، الشیخ عظیم آبادی ، الشیخ مبارکپوری، الشیخ عطاءاللہ حنیف، الشیخ بدیع الدین شاہ، الشیخ زبیر علی زئی، الشیخ سلطان محمود محدث، الشیخ محمد رفیق الاثری، الشیخ اللہ یار رحمھم اللہ اور انکے علاوہ دیگر کئی علماء کا ذکر کیا.
🔸 (7) جمع المرویّات المکرّرات فی البخاری از مولانا محمد اسماعیل محمدی اثری صاحب:
اس میں مقالہ نگار نے صحیح بخاری میں موجود 36 مرتبہ مکررہ مرویات سے لے کر 12 مکرّرہ مرویات تک کو مرتب کیا جس میں امام بخاری رحمہ اللہ کے انداز تفقہ پر سیر حاصل بحث کی. مولانا موصوف نے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد شیخ مکرم رحمہ اللہ کے حکم سے 2018ء میں اسی جامعہ میں تدریس شروع کی لیکن اس سے اگلے سال دارِ فانی چھوڑ کر دارِ بقاء کو کوچ کر چلے. میں نے ان کی حیات کے متعلق ایک مضمون الاعتصام رسالہ میں دیا ہے جو کہ جلد نمبر 71 شمارہ نمبر 34 کے صفحہ نمبر 29 میں موجود ہے.
🔸 (8) تذکرہ مصنفین صحاح ستّہ از مولانا یحی دین پوری صاحب:
مقالہ نگار نے اس میں ائمہ ستہ کے حالات مسلک ، علمی اسفار اور شیوخ و تلامذہ کا دلنشین ذکر کیا ہے.
🔸 (9) ثلاثیاتِ بخاری:
اس عنوان سے تین افراد کے مقالے نظر سے گزرے. 1: مولانا آصف جاوید صاحب: انکا مقالہ 98 صفحات پر مشتمل ہے. 2: مولانا دریا خان صحراوی : انکا مقالہ 101 صفحات پر مشتمل ہے. 3: مولانا ضیاءالرحمن فاروقی صاحب: ان کا مقالہ 100 صفحات پر مشتمل ہے. یہ اس وقت جامعہ میں مدرس بھی ہیں وللہ الحمد.
مذکورہ عنوان کے تحت مقالہ نگاروں نے صحیح بخاری کی 22 ثلاثی روایات کی سندوں کا دِراسہ کیا یعنی تمام رواۃ کے فرداً فرداً احوال اور محدثین کے انکے متعلق اقوال کا ذکر کیا نیز متن حدیث کی شرح فقہی استنباط کے انداز میں کی اور انکی تخریج بھی کی.
🔸 (10) جمع الکلام ما نال لی فی قول البخاری قال لی از مولانا عبیدالرحمن ڈیروی صاحب:
مقالہ نگار نے اس میں صحیح بخاری میں موجود ان مقامات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے جہاں پر امام صاحب رحمہ اللہ اپنے کسی استاذ سے “قال لنا فلان” یا “قال لی فلان” کے صیغے استعمال کر کے روایت لیتے ہیں. مقالہ نگار نے مقدمہ میں تقریباً پچاس ایسے مقامات کا ذکر کیا ہے جہاں پر یہ صیغہ مستعمل ہے لیکن وقت کی قلت کے ہیش نظر ان میں سے 14 مقامات کا احاطہ کر سکے.
انہوں نے مذکورہ صیغے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد مختلف علماء محدثین کی آراء کی روشنی میں واضح کی ہے نیز جن شیوخ سے امام صاحب نا اس صیغے سے روایت لی ہے ان کے حالات و تراجم بھی ذکر کر دیے ہیں.
یہ مقالہ عربی زبان میں ہے اور نہایت نفیس مضمون ہے.
ہم پر امید ہیں کہ مولانا موصوف اس عمدہ کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے. ان شاء اللہ العزیز.
🔸 (11) الاطلاع للقاری علی ترجمۃ البخاری اردو ترجمہ حیاۃ البخاری از راقم الحروف محمد فھد محمدی:
یہ مقالہ 101 صفحات پر مشتمل ہے. راقم الحروف نے اس میں علامہ جمال الدین القاسمی رحمہ اللہ کی عربی کتاب “حیاۃ البخاری” کا اردو ترجمہ کیا ہے. شیخ مکرم رحمہ اللہ اس کتاب کو بڑا پسند کرتے اور فرماتے تھے کہ یہ کتاب بڑی جامع ہے مختصر ہونے کے باوجود امام صاحب کے حالات ، لوازمات اور اعتراضات کے جوابات پہ مشتمل اہم مجموعہ ہے.
یہ مقالہ میرے ذمے لگاتے وقت مجھے فرمایا تھا کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ میری نظر سے کبھی نہیں گزرا آپ اس کا ترجمہ کر دو.
الحمد للہ ترجمہ کر کے شیخ مکرم رحمہ اللہ کے حوالے کیا تو تحسین فرمائی اور اسے چھپوا کر شائع کرنے کی خواہش ظاہر فرمائی جو وفات آ جانے کے باعث پوری نہ ہو سکی.
🔸 (12) جمع المحاسن فی احادیث لایؤمن از راقم الحروف محمد فھد محمدی:
یہ مقالہ 107 صفحات پر مشتمل ہے. راقم الحروف نے اس میں “لایؤمن” لفظ سے شروع ہونے والی وہ تمام روایات جمع کر دی ہیں جو صحاح ستہ ،سنن دارمی اور مسند احمد بن حنبل میں موجود ہیں متن کی تحقیق و تخریج اور تشریح کرنے کے ساتھ ساتھ شیخین کی مرویات کے علاوہ باقی کتب کے رواۃ کی بحث کی ہے جس میں جرح و تعدیل اور رجال کا تعارف شامل ہے. اور یہ مقالہ 107 صفحات پر مشتمل ہے.
🔸 (13) منحۃ الاحوذی فی جمع الرواۃ التی تکلم فیہم الامام الترمذی از مولانا ریاض عاقب الاثری صاحب:
اس میں مقالہ نگار نے ان رواۃ کو حروف تہجی کی ترتیب پہ جمع کیا ہے جن پہ امام ترمذی نے کلام کی ہے پھر ان رواۃ کی جرح و تعدیل تقریب التہذیب اور الکاشف سے بھی نقل کی ہے. اور یہ 134 صفحات پہ مشتمل ہے.
🔸 (14) صحیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ از محمد احمد فاروقی صاحب:
اس میں مقالہ نگار نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے صحیفہ کی مرویات، انکی تخریج، تشریح، فقہی احکام اور رواۃ حدیث پر بحث کی ہے. اور یہ 86 صفحات پر مشتمل ہے.
🔸 (15) تحقیق و تخریج السند لاحادیث قراءۃ الفاتحۃ و کذا مكتوبات النبی ﷺ الی الأمراء:
مولانا شکر اللہ شاکری صاحب نے قراءۃ فاتحہ کی چند احادیث کی تحقیق و تخریج، بحث الرجال پہ اور اسی طرح نبی کریم ﷺ کے ان خطوط پہ بحث کی جو آپ نے بادشاہوں کی طرف بھیجے تھے.
🔸 (16) صلاۃ النبی ﷺ کما بیّنہ مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ از مولانا محمد طارق محمود صاحب:
اس میں سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے جو نبی اکرم ﷺ کی نماز کا طریقہ نقل کیا ہے مختلف روایات سے انکو اکٹھا کر کے تشریح کی گئی ہے. مقالہ عربی میں ہے اور 64 صفحات پر مشتمل ہے.
🔸 (17) شرح حدیث صلح حدیبیہ از مولانا محمد فیاض محمدی صاحب:
اس میں مقالہ نگار نے صلح حدیبیہ کے متعلق صحیح بخاری کی حدیث اور ترجمہ کے بعد فتح الباری لابن الحجر العسقلانی، زاد المعاد لابن القیم، الرحیق المختوم لصفی الرحمن المباکربوری اور رحمۃ للعالمین لسید سلیمان الندوی سے تفصیلات ذکر کی ہیں. مقالہ 101 صفحات پر مشتمل ہے.
🔸 (18) مختلف کتب پر ریسرچ اور ان کا تعارف از مولانا محمد عمر چنگوانی صاحب:
اس مقالہ میں مقالہ نگار نے تفسیر ، حدیث ، فقہ اور تاریخ کی مختلف کتب کے تعارف پیش کئے ہیں جس میں ان کے مصنفین کے احوال، فضیلت اور فن کے حوالے سے انکی کتاب کی وقعت کا بیان کیا گیا ہے.
🔸 (19) تخریج احادیث خمسہ امام مہدی از عبدالواحد
🔸 (20) پندرہ کتب رجال اور ان کے مؤلفین کا تذکرہ از عبدالمہیمن:
اس میں مقالہ نگار نے تاریخ دمشق، سیر اعلام النبلاء، تاریخ اسلام، تہذیب الکمال، تاریخ بغداد، البدایۃ والنہایۃ معجم الصحابہ اور اس جیسی دیگر کتب کا تعارف پیش کیا ہے.

اساتذہ کو نصیحتیں:

شیخ مکرم رحمہ اللہ نے مختلف اوقات میں اساتذہ کو جو نصیحتیں ارشاد فرمائی ہیں ان میں سے چند کا ذکر.
🔸 (1) سبق سمجھانے کا حق ادا کریں جب تک خود کو سمجھ نہ آئے اس وقت تک سبق نہ پڑھائیں بلکہ اگلے دن تک ٹال دیں.
🔸 (2) بغیر مطالعہ کے سبق نہ پڑھائیں.
🔸 (3) ہر حدیث کا ترجمہ کرائیں.
🔸 (4) طلباء کے سامنے اردو کتب سے مطالعہ نہ کریں کیونکہ اس سے طلبہ پر اچھا تاثر نہیں پڑتا اگر ضرورت ہو تو علیحدگی میں دیکھیں.
🔸 (5) طلبہ سے عبارت سنتے وقت اعراب پہ خصوصی توجہ دیں صرفی نحوی اغلاط کی تصحیح کراتے جائیں.
🔸 (6) کوئی طالب علم ترجمہ یا سوال پوچھے تو نظر انداز مت کریں بلکہ اس پہ توجہ دیں.
🔸 (7) کچھ طلبہ ذہین ہوتے ہیں اور کچھ ذرا کمزور ہوتے ہیں جو اذکیاء کے ساتھ نہیں چل سکتے تو ان کے الگ الگ گروپ بنا لیں تاکہ آپ ہر گروپ کو ان کے معیار کے مطابق سمجھانے کا انداز اپنا سکیں.
🔷 28 اکتوبر 2020 کو گوجرانوالہ کے ایک جامعہ سے اساتذہ و طلبہ پہ مشتمل قافلہ جلالپور پیر والا میں شیخ مکرم رحمہ اللہ کی خدمت میں پہنچا تو شیخ مکرم رحمہ اللہ نے ان کے استقبال کیلئے جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کو جمع ہونے کا حکم دیا راقم الحروف بھی اساتذہ کی لسٹ میں شمار ہونے کے باعث شامل تھا.
محفل بڑی دلچسپ تھی اسی دوران قافلہ میں سے اساتذہ کی جماعت نے نصیحت طلب کی تو شیخ مکرم رحمہ اللہ نے فرمایا:
🔸 (8) ہر استاذ کو طلبہ کی نفسیات کا ماہر ہونا چاہئے کہ وہ کس مزاج اور انداز سے بات کو سمجھتا ہے جو جس انداز میں سمجھے اسے ویسے سمجھائیں.
🔸 (9) پھر توجہ کرنے نہ کرنے میں بھی طلبہ مختلف ہوتے ہیں ان کا مزاج بھانپیں کہ یہ پیار سے صحیح پڑھے گا یا دھمکی دینے کی ضرورت پڑے گی ؟ استاد کو اس بات کا پتہ ہونا چاہئے.
🔸 (10) پڑھائی میں پٹائی کام نہیں کرتی اور نہ ہی زیادہ پیار لہٰذا استاذ محتاط رہے.
🔸 (11) استاذ طلبہ کے رجحان کو پرکھے کہ کونسا طالب کس طرف زیادہ راغب ہے مثلاً کچھ طلبہ خطابت میں اچھے ہوتے ہیں جبکہ پڑھنے میں صفر ہوتے ہیں تو ان سے وہی کام لیں جو وہ کر سکیں ساتھ ساتھ حتی الوسع پڑھائی کا کام بھی لیتے رہیں تاکہ ضائع نہ ہو جائیں. اور بعض طلبہ مدرس ذہن کے ہوتے ہیں جو کتاب کی گہرائی میں جاتے ہیں تو استاذ کو چاہیے کہ ایسے ہیروں کو وہ مدرس بنانے کے ذہن سے توجہ رکھیں.
🔸 (12) حدیث کی ابتائی کتاب مثلاً بلوغ المرام میں استاذ طلبہ کو صیغہ اور نحو کی طرف متوجہ رکھے اور یہ انداز اگر قرآن میں بھی اختیار کر لیا جائے تو اس میں اور آسانی ہے.
🔸 (13) الشیخ عبداللہ امرتسری رحمہ اللہ کا اندازِ تدریس مجھے بڑا پسند آیا آپ لوگ وہ انداز بھی اختیار کر دیکھیں.
وہ قرآن پڑھاتے وقت سب سے پہلے الفاظ کی لغت اور نحو پہ فرداً فرداً گفتگو کرتے پھر لفظی ترجمہ کرتے اور ہھر تیسرے نمبر پہ سلیس ترجمہ کرتے تھے. یہ انداز میں نے ان سے لاہور کی مسجد القدس میں ان کے درس دیتے وقت حاصل کیا. میں وہاں کا باقاعدہ طالب تو نہیں تھا اتفاقا گیا ہوا تھا.
🔸 (14) بخاری کی تدریس میں چند باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے مثلاً : مثلاً اہم رواۃ کا تعارف لازمی کرائیں جیسے لیث بن سعد جو کہ بہت بڑے مجتہد تھے ، سلیمان بن مہران اعمش ، قتادۃ بن دعامۃ ، شعبہ بن حجاج ، عبدالرحمن اعرج ، اوزاعی ، محمد بن جعفر غندر ، محمد بن بشار بندار وغیرہ کیونکہ اکثر مختصر نام ذکر ہوتا ہے تو بچوں کو پورا نام اور تعارف یاد ہو مثلاً بندار کا لفظ آئے تو نام مع ولدیت طلبہ سے پوچھیں نہ آئے تو بتا دیں اسی طرح مذکورہ ناموں کو قیاس کر لیں. یوں ہی بغیر پہنان کے حدثنا فلان اخبرنا فلان کی رٹ لگاتے رہنے سے بخاری پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا.
🔸 (15) صیغ اداء کا تعارف کرانے کے ساتھ ان کا آپس میں فرق بھی سمجھائیں مثلاً کوئی امام حدثنا کب بولتا ہے یا حدثنی کب بولتا ہے اسی طرح اخبرنا اخبرنی ، انبأنا و أنبأنی اور عن وغیرہ خاص طور پر قتادۃ اور سفیان ثوری تو مدلس ہیں امام بخاری ان کی معنعن روایت کیوں لائے ہیں ؟ ان کے پاس ضرور اس کا کوئی حل موجود ہو گا مثلاً صحیح بخاری میں دوسرے کسی مقام پہ تصریح سماع موجود ہو گی یا کیسی اور امام کی کتاب میں صراحت سماع ہو چکی ہو گی استاذ باقاعدہ توجہ دلائے اور ذمے لگائے.
اسی طرح شعبہ عن قتادہ والی روایت میں قتادہ عن سے بیان کرے تو اس کے متعلق طلبہ کو تسلّی کرائیں کہ ایسی روایت اتصال پہ محمول ہے کیونکہ شعبہ کا اپنا کہنا ہے کہ میں قتادہ سے روایت لیتے وقت تصریح سماع کا یقین کر لیتا تھا پھر روایت کو لکھتا تھا.
🔸 (16) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر بالعموم کنٰی سے ہوتا ہے مثلاً ابوبکر ، ابوہریرہ ، ابو موسٰی رضوان اللہ علیہم اجمعین تو طلباء کو ان کے نام کا ادراک ہونا چاہئے آپ طلبہ کی پریکٹس کرائیں ان سے کتب رجال میں سے تلاش کر لانے کو کہیں.
🔸 (17) عموماً آسان متن والی روایت کا ترجمہ کئے بغیر محض اسکی عبارت کی قراءت پہ اکتفاء کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود طلبہ کو متوجہ رکھیں اور کہیں کہ کوئی مشکل لفظ آئے تو معنی پوچھ لیا کرو.
متوجہ رکھنے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ آپ محسوس کریں فلان لفظ فلان طالب کو نہیں آتا ہو گا لیکن اس نے نہیں پوچھا تو آپ خود اس سے پوچھیں کہ اس لفظ کا کیا مطلب ہے اگر اسے نہ آئے تو بتا دیں اس سے طالب ہوشیار ہو کر بیٹھے گا.
🔸 (18) ایک حدیث کئی مقامات پہ مختلف ابواب کے تحت آ رہی ہے تو توجہ دلائیں کہ امام صاحب رحمہ اللہ اس سے کئی مسائل استنباط کرنا چاہتے ہیں.
🔸 (19) سنن نسائی اور صحیح مسلم میں ایک ہی روایت کئی سندوں سے آ رہی ہے تو انہیں ایسے نہ گزاریں بلکہ توجہ دلائیں کہ اس کی کیا وجہ ہے مثلاً بعض مقامات پر متابعت بتانا مقصود ہو گی ، بعض جگہ شواہد کا ذکر کرنا مقصود ہو گا اور کہیں پہ شبہ تدلیس کے ازالے کیلئے تصریح سماع بیان کرنا مقصود ہو گی.
🔸 (20) سنن نسائی میں “خالفه فلان” میں ضمیر کا مرجع پہچاننے میں طلباء کو دقت پیش آتی ہے اس کا حل کرائے بغیر استاذ آگے نہ بڑھے.
🔸 (21) مشکوۃ المصابیح تک ہر حدیث کا ترجمہ بتایا جائے ورنہ یہ طلبہ پہ ظلم ہو گا.

طلبہ کو نصیحتیں:

مختلف اوقات میں شیخ مکرم رحمہ اللہ نے طلبہ کو نصیحتیں ارشاد فرمائی ہیں ان کا ذکر کیا جاتا ہے.
🔸 (1) طلبہ کیلئے درسی کتب کے مطالعہ میں استیعاب کرنے کے علاوہ ماحولیاتی خبروں کا علم ہونا ضروری ہے کہ ہمارے ارد گرد کیا ہو رہا ہے خاص طور پہ ہمیں ہمارے قرب و جوار کے جغرافیہ کا علم ہو نیز ہمارے اسلامی ملک کتنے ہیں، کون سے ہیں ، ان میں آبادی کتنی ہے، وہاں اسلام کیسے پھیلا اس متعلق موٹی موٹی باتیں ہر طالب علم اپنے مطالعہ میں رکھے لیکن درسی کتب کی تیاری میں لچک نہ آنے پائے.
🔸 (2) تاریخ ابن خلدون کا مقدمہ پڑھیں اس میں نحو، صرف، منطق، تاریخ، جغرافیہ، اور حدیث جیسے کئی علوم پہ بحث کی گئی ہے.
🔸 (3) دارالسلام کی سیرت انسائیکلوپیڈیا اور اطلس القرآن بھی قابل مطالعہ ہیں ان میں جغرافیہ کے نقشے دیے گئے ہیں جس بنا پہ وہ بڑی دلچسپ ہو گئی ہیں.
🔸 (4) جب کسی علاقے میں کام کرنے کا موقع ملے اور وہاں دوسرے علماء بھی موجود ہوں تو کسی سے نفرت کئے بغیر خالص دین کا کام کریں تنظیمی تفریق کے پیش نظر کبھی تنگیاں نہ ڈالنا اور نہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا بلکہ رسول اللہ ﷺ کا وہ فرمان یاد رکھنا جو آپ نے ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن کی طرف بھیجتے وقت فرمایا تھا کہ:

يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا.

ترجمہ: دیکھو لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، دشواریاں نہ پیدا کرنا، انہیں خوش کرنے کی کوشش کرنا، نفرت نہ دلانا. (صحیح بخاری: 4342)
🔸 (5) دو جوازی امور میں سے ایسے امر سے اجتناب کرنا جس سے لوگوں میں فساد کا اندیشہ ہو مثلاً فرض نماز یا نماز جنازہ جوتا پہن کر یا اتار کر پڑھنے کا مسئلہ ہے اگر چہ دونوں جائز ہیں لیکن جوتا پہن کر پڑھنے سے لوگوں میں فساد آئے گا وہ آپ کو گستاخ کہہ کر آپ کی بات سننے کو بھی تیار نہ ہوں گے اور وہ حدیث یاد رکھنا جو نبی پاک ﷺ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمائی تھی کہ:

لَوْلَا حَدَاثَةُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْبَيْتَ ثُمَّ لَبَنَيْتُهُ عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَإِنَّ قُرَيْشًا اسْتَقْصَرَتْ بِنَاءَهُ وَجَعَلْتُ لَهُ خَلْفًا

ترجمہ: اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے ابھی تازہ نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو توڑ کر اسے ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر بناتا کیونکہ قریش نے اس میں کمی کر دی ہے۔ اس میں ایک دروازہ اور اس دروازے کے مقابل رکھتا. (صحیح بخاری: 1585)
🔸 (6) مواضع تہم سے بچتے رہنا یعنی جہاں تہمت لگنے کا اندیشہ ہو. اسی وجہ سے رسول پاک ﷺ نے بھی تہمت کے مظن کا ازالہ فرمایا تھا جیسے اس روایت میں ہے:

عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا، فَحَدَّثْتُهُ ثُمَّ قُمْتُ فَانْقَلَبْتُ، فَقَامَ مَعِي لِيَقْلِبَنِي، وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، فَمَرَّ رَجُلاَنِ مِنَ الأَنْصَارِ، فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَى رِسْلِكُمَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ» فَقَالاَ سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا سُوءًا، أَوْ قَالَ: شَيْئًا

ترجمہ: صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے تو میں رات کے وقت آپ سے ملاقات کے لیے ( مسجد میں ) آئی، میں آپ سے باتیں کرتی رہی، پھر جب واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئی تو آپ بھی مجھے چھوڑ آنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا مکان اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے مکان ہی میں تھا۔ اسی وقت دو انصاری صحابہ ( اسید بن حضیر ، عبادہ بن بشیر ) گزرے۔ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو تیز چلنے لگے۔ آپ نے ان سے فرمایا، ذرا ٹھہرجاو یہ صفیہ بنت حیی ہیں۔ ان دونوں صحابہ نے عرض کیا، سبحان اللہ یا رسول اللہ! ( کیا ہم بھی آپ کے بارے میں کوئی شبہ کرسکتے ہیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ اس لیے مجھے ڈر لگا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی وسوسہ نہ ڈال دے. (صحیح بخاری: 3281).

علالت اور وفات:

ماہ صفر کے ابتدائی ایام میں بخار کی سی کیفیت طاری ہوئی جو کہ طبیعت میں کمزوری کا باعث بنی حتی کہ بہاولپور ہسپتال میں منتقل کردیا گیا وہاں کئی ایام تک علاج جاری رہا.
19 صفر 1443ھ بمطابق 27 ستمبر 2021ء صبح کے وقت راقم الحروف بمع دیگر اساتذہ بہاولپور عیادت کیلئے گئے انتہائی نگہداشت وارڈ میں ہونے کی وجہ سے فرداً فرداً چند لمحے کیلئے داخلہ کی اجازت ملتی رہی حالت انتہائی ناساز تھی ہر زبان پہ دعائیں تھی.
بعد نماز ظہر واپسی کا سفر شروع ہونے کو تھا گاڑی پہ بیٹھنے لگے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی گھنٹی بجتے ہی سانس تیزی سے پھولنے لگا کال اٹینڈ کی تو یہ سن کر اوسان خطا ہو گئے کہ سر زمین جلال پور عظیم محدث العصر سے محروم ہو گئی ہے. بس پھر ہر آنکھ رونے والی تھی ہر طرف سے کالز اور رابطوں کا تانتا بندھ گیا.
اس سے اگلے ہی روز 20 صفر 1443ھ بمطابق 28 ستمبر 2021ء کو دارالحدیث محمدیہ عید گاہ اہلحدیث گلستان عائشہ جلال پور میں نماز جنازہ پڑھی گئی جس کی امامت کے فرائض الشیخ العلامۃ حافظ مسعود عالم صاحب حفظہ اللہ نے ادا کیے اور پھر جلالپور میں لودھراں روڈ ظاہر پیر چوک کے نزدیک مقبرہ میں انہیں سپرد خاک کردیا گیا

فَإِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.
إنّ العينَ تدمعُ والقلبَ يحزنُ ولا نقول إلا ما يرضيٰ رَبُّنا و اِنّا بِفِراقِکَ لَمحْزونونَ.

تحریر: محمد فھد محمدی مدرس دارالحدیث المحمدیہ جلالپور

یہ بھی پڑھیں: پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ کا مختصر تعارف