مولانا رفیع الدین شکرانوی

[1270ھ/ 1854ء — 1338 ھ/1919ء]

سر زمین بہار کی بَہار آفرینیوں میں سے ایک لائق ذکر امر یہ بھی ہے کہ اس کے چھوٹے چھوٹے قصبات و دیہات میں بھی شمع علم کے ایسے ایسے پروانے رہتے بستے تھے کہ جن کی پوری زندگی طلب علم اور نشر علم کی سعادتوں سے معمور رہی۔ عظیم آباد پٹنہ کے اطراف میں تین ایسی ہی بستیاں آباد تھیں کہ جہاں تین باکمال محدث فروکش تھے۔ یہ تینو ں ہی معاصر تھے اور مزید قدر مشترک کہ یہ تینوں ہی خانوادہ صدیقی کے مہر جہاں تاب تھے۔ تینو ں ہی کے پاس کتب حدیث و رجال کا گراں قدر سر مایہ تھا جس میں نادر و کمیاب کتابیں موجود تھیں۔

اولھم: علامہ ابو الطیف شمس الحق صاحب عون المعبود شرح سُنن ابی داود، جو موضع ڈیانواں کے نامور عالم دین تھے۔ جن کا شہرہ علمی عرب و عجم کے طلاب علم حدیث پر اپنی فضیلت کا سکہ رائج کر چکا ہے۔

ثانیھم: علامہ حکیم ظہیر احسن شوق مصنف آثار السنن جو موضع نیمی کے جید عالم دین تھے اور جن کی ذات فقہائے احناف کے نزدیک مسلم الثبوت تھی۔

آخر ھم: علامہ حکیم رفیع الدین محدث جو موضع شکرانواں کے رفیع المرتبت عالم دین تھے اور جن کے حالات مندرجہ ذکر ہر دو اصحاب کی نسبت تاریکی وگمنامی میں ہیں اور یہاں انہیں کے حالات کا اظہار تفصیل سے کرنا مقصود ہے۔

مولانا رفیع الدین شکرانوی کی ولادت 1270/1854 میں شکرانواں میں ہوئی۔ مولانا حکیم عبدالحئ حسنی نے نزھۃ الخواطر میں مولانا کے تذکرے میں سن ولادت 1261ھ لکھا ہے۔ [8/153] جبکہ مولانا ابو طاہر بہاری نے 1270ھ تحریر فرمایا ہے۔ (ملاحظہ ہو ہفت روزہ اہل حدیث امر تسر 24 اکتوبر 1919ء) مولانا بہاری کی تائید حکیم وحیدالحق مونگیری کے درج ذیل بیان سے بھی ہوتی ہے:
1331ھ میں اس عاجز سے موضع رسول پور بہدور میں ملاقات ہوئی۔ ہر قسم کا علمی تذکرہ دیر تک ہوتا رہا۔ اس میں اپنی عمر کے متعلق یہ فر مایا کہ اس وقت میری عمر اکسٹھ برس کی ہے۔ ( ہفت روزہ اہل حدیث امر تسر 21 نومبر 1919ء)

مولانا رفیع الدین کا سلسلہ نصب خلیفہ بلافصل سیدنا ابو بکر صدیق اکبر سے جا ملتا ہے۔ سلسلہ نصب درج ذیل ہے: مولانا رفیع الدین بن بہادر علی بن نعمت علی بن محمد دائم علی۔آپ کے نانا شیخ غلام علی کے متعلق کہا جا تا ہے کے وہ سید احمد شہید کے کسی خلیفہ کے مر ید تھے۔حکیم وحید الحق لکھتے ہیں:
ان کا مو لد اور ان کا متو طن چند پشتوں سے مو ضع شکر ا نواں علاقہ ڈویزن بہار ضلع پٹنہ میں تھا اور یہیں انتقال کیا۔ سابق جدی گھر آپ کا مو ضع رسول پور بہدور پر گنہ غیاث پور علاقہ ڈو یزن بارہ پٹنہ تھا ان کے جد اعلیٰ محمد دائم علی کی شادی موضع شکرانواں میں ہوئی تھی۔
مولانا رفیع الدین کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ مولوی سلامت علی سے کافیہ تک تحصیل کی۔
اس کے بعد موضع شکرانواں سے قریب ایک مقام گیلانی میں مولانا محمد احسن گیلانی(1) سے(7) برس کی مدت میں درس نظامی کی تکمیل کی۔
مولانا گیلانی سے استفادو کرنے کے بعد مشہور محدث سید میاں نذیر حسین محدث بہاری ثم دہلوی کو خط لکھا کہ: قرب وجوار کے سبب سے آپ پر مراحق ہے، حا ضر ہو کر استفادہ کرنا چاہتا ہوں، پر شرط یہ ہے کہ صحاح ستہ اور جلالین ایک ہی سال ختم ہوں اور قراۃ بھی میں ہی کروں گا۔ میاں صاحب نے تمام شرائط کو قبول کر کے اپنے مکتوب گرامی کوالسعی منی والا تمام من اللہ سے مزین کیا۔ چنانچہ عازم دہلی ہوئے سید نظیر حسین سے کتب ستہ، موطاء امام مالک اور تفسیر جلالین پڑھی۔ مولانا حکیم عبد الحئ حسنی نے مولانا شریف حسین بن سید نظیر حسین کو رفیق درس شمار کیا ہے [نزھۃالخواطر: 153/8] جو کہ محل نظر ہے۔ جبکہ مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری نے علامہ حا فظ عبد اللہ محدث غازی پوری اور علامہ عبد العزیز رحیم آبادی کو رفقائے درس میں شمار کیا ہے۔ [ملاحظہ ہو:ماہنامہ برہان دہلی جنوری1957ء]
سید نظیر حسین سے مستفید ہونے کے بعد مولانا شکرانوای نے امرتسر کی طرف شدر حال کیا جہاں حضرت عارف بااللہ سید عبداللہ غزنوی کی صحبت مبارکہ روحانی فیوض بر کات کے حوالے سے اصحاب خلوص کے لیے بڑی کشش رکھتی تھی۔ جب حضرت غزنوی کی خدمت میں پہنچے تو انہوں نے فرمایا: شمادر اثناء راہ بودی کہ مرا الہام شدکہ ع مردہ باد کہ مسیحا نفسے می آید (تعبیر) ازدست شما اشاعت توحیدوسنت بسیار خواہد گشت انشاء اللہ تعالیٰ۔ امر تسر میں آٹھ ماہ قیام کر کے اکتساب فیض کیا۔
اس کے بعد عازم حرمین شریفین ہوئے، جہاں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ متعدد اہل علم وکمال سے بھی مستفید ہو ئے،حجاز میں سال، ڈیڑھ سال قیام میں زیادہ وقت کتب خانوں میں گزرا، خصوصیت کے ساتھ قلمی کتابوں کی طرف توجہ دی، جو روپیہ بچتا بے دریغ کتابوں پر خرچ کر دیتے، خود عسرت میں رہتے، قیام مکہ مکرمہ میں رہتا مگر مدینے میں بھی کتابیں نقل ہوتیں، اوسطاً ڈیڑھ سو وراق روزانہ کام پر مامور ہوتے۔ تفسیر ابن کثیر پر گیارہ سو اور تفسیرابن جریر طبری پر 22 سو خرچ ہوئے۔ حجاز میں اس وقت ترکوں کی حکومت تھی، شکایت کی گئی کہ کتب خانے میں ہلڑ مچاہوا ہے، چنانچہ تفتیش ہوئی اور ناظم سے جواب طلب کیا گیا، ناظم نے جواب دیا کہ عموماً سبعہ معلقہ حماسہ کے شائقین کتب خانے سے استفادہ کیا کرتے تھے، مگر اس ہندی نوجوان جیسا صاحب ذوق اور پاکیزہ اطوار میں نے نہیں دیکھا، اسے تفسیرو حدیث سے والہانہ عقیدت ہے، جان و مال دونو ں نچھاور کرتا ہے اور انہیں کی نقل لیتا ہے۔ سلطان بہت متاثر ہوا اور ہر طرح کی آسانی بہم پہو نچانے کا حکم دیا اور مولانا سے ملنا چاہا، مگر مولانا ٹال گئے۔
بہار مراجعت فرمانے کے دوران بمبئی سے ایک پریس خرید نے کے علاوہ بھو پال میں محدث شہیر علامہ شیخ حسین بن محسن انصاری سے سند و اجازہ حد یث حاصل کیا۔
وطن پہنچ کرمولانا احیائے علم، اعلائے کلمتہ اللہ، اشاعتہ السنۃ، ترویج اقامت دین اور فروغ عمل بر حدیث کے لیے مستعد ہوگئے۔ اپنے گاؤں شکرانواں ہی میں مطبع قائم کیا اور قلمی کتابوں کی اشاعت کی۔ چنانچہ بقول مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری:
ذم التاویل لابن قدامہ، تائید مذہب السلف اور ابو داؤد مع شروح حواشی اور بروایت بعض تفسیر ابن جریر طبری کے کچھ اجزاء طبع کیے۔[ماہنامہ برہان دہلی جنوری1957ء]
مولانا مناظر احسن گیلانی نے اطراف عظیم آباد کے اس کو ردہ دیہات سے طبع ہونے والی کتابوں میں ابن قتیبہ کی تاویل الا حادیث کا بھی ذکر کیا ہے۔ [ملاحظہ ہو: پاک و ہند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت: 353/1]
بعد ازاں مولانا نے یہ پریس ایک نو مسلم عالم کو بغرض تالیف قلب دے دیا، جو گیلانی ہی سے تعلق رکھتے تھے۔
مولانا رفیع الدین صاحب علم و فضل تھے، مولانا حکیم سید عبد الحئ حسنی آپ کے اخلاق حسنہ، شوق علم و عمل، شعار عمل بالحدیث اور علم تفسیر میں فعر و متاع کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“ولہ مکارم و فضائل و اخلاق حسنۃ بذل الا موال الطائلۃ فی تحصیل الکتب النفیۃ و استنسخھا و جبلھا من العرب و العراق، ولا یقلد احدا من الائمۃ، ویفتی بما یقوم عندہ دلیلہ، ولہ ید بیضاء فی التفسیر، تفسیر القرآن با لقرآن، و یدرسہ کل یوم بمحضر للناس، و یدرس الحدیث” [نزھۃ الخواطر: 153/8]

ترجمہ: آپ صاحب مکارم و فضائل اور خوش اخلاق تھے۔ آپ نے کتب نفیسہ حاصل کرنے کے لیے کافی دولت خرچ کی۔ بہت سی کتابوں کی خود کتابت کی اور اکثر عرب و عراق سے لے کر آئے۔ ائمہ میں سے کسی ایک کی تقلید نہیں کرتے تھے اور دلیل کی بنیاد پر فتویٰ دیتے تھے۔ تفسیر القرآن بالقرآن پرید طولیٰ حاصل تھا۔ ہر روز لوگوں کے مجمع میں درس دیا کرتے تھے اور حدیث کا درس بھی دیا کرتے تھے۔
مولانا ابو طاہر بہاری مولانا کی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
بذریعہ تقریر و تحریر اشاعت اسلام بہایت گرم جوشی کے ساتھ کرتے رہے۔ قدماء اہل اسلام کے عقائد کی کتابوں کی اشاعت بہایت سعی کے ساتھ کی۔ احادیث کی کتابوں کی طبع کا خود اپنے مکان پر سامان کیا اور بعض کتابیں حدیث کی صحت کے ساتھ طبع کرا کے شائع کیں۔ [ہفت روزہ ایل حدیث امرتسر 24 اکتوبر 1919ء]
مولانا بڑے رقیق القلب تھے، با وجو یکہ شکرانواں کے سب سے بڑے رئیس تھے، لیکن علم و دین کی وسعت و ہمہ گیری نے طبعیت میں عاجزی و انکساری پیدا کردی تھی۔ غریبوں کی خبرگیری کرتے۔ اپنے پاس آنے والے طلاب علم کی ضرورتوں کے کفیل ہوتے۔ مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری لکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مولانا کو دھن و دولت سے بھی نوازا تھا اور اس نعمت سے پورا فائدہ اٹھایا تھا چنانچہ ہزاروں کارہائے خیر کے علاوہ خود ایک اعلیٰ مدرسہ کے بانی اور اس کے سارے اخراجات کے کفیل تھے۔ حدیث کے طلبہ یمن، نجد، حجاز، عراق سے برابر آتے رہتے تھے، خراسان کے مولوی عبداللہ صاحب مسلسل تین سال تک مقیم رہے، ان معزز مہمانوں کا مولانا کو بہت خیال رہتا تھا کہ ان کی معمولی تکلیف سے بے چین ہوکر تڑپ جاتے تھے۔ آم کے مو سم میں روزانہ ٹوکریوں سے طلبہ کے کام و دہن کو نوازتے رہتےتھے، رمضان المبارک میں من ڈیڑھ من آٹے کی شیر مال، آبی وخصی کا گو شت قرب جوار کے نادار مفلس لوگوں میں تقسیم کرتے تھے۔ [ماہنامہ برہان دہلی جنوری 1957ء]
مولانا کو کتب بینی کا از حد شوق تھا، خان بہادر خدا بخش خاں سے بڑے خوشگوار اور پائیدار روابط تھے۔ خدا بخش خاں وکیل تھے انہیں کتابیں جمع کرنے کا بڑا شوق تھا، بالآخر خدا بخش خاں کے اخلاق کا ثمرہ ایک عظیم الشان کتب خانے کی صورت میں ظاہر ہوا جس کا فیض آج بھی جاری ہے۔ یہاں یہ امر بالخصوص لائق تذکرہ ہے کہ نادر کتابوں کی نشاندہی اور تحصیل میں مولانا رفیع الدین کی معاونت ہمیشہ ان کے شریک حال رہی۔ بقول مولانا ابوسلمہ شفیع احمد:
مولانا کی رہنمائی اگر انہیں حاصل نہ ہوتی تو اتنی بڑی کامیابی مشکل سے ہوسکتی تھی۔ نادر کتابوں کے ذوق میں اضافہ اور ان کی نشان دہی میں بہت زیادہ مشورہ مولانا ہی نے دیا اور اس طرح نادر مخطوطات کا ذخیرہ جمع ہوگیا۔ [ماہنامہ برہان دہلی جنوری 1957ء]
خود مولانا کا کتب خانہ بھی طرح طرح کے مخطوطات اور نادر و نایاب کتابوں سے معمور تھا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی رقمطراز ہیں:
شکرانواں ضلع پٹنہ کا مشہور گاؤں ہے، مولانا اس اطراف کے سب سے بڑے مسلمان رئیس تھے، لاکھوں روپے کی جائیداد کے مالک تھے، لیکن علم کا نشہ آخر وقت تک سوار رہا۔ نادر مخطوطات کا ایک قیمتی کتب خانہ آپ نے شکرانوں میں مہیا کیا، تفسیر جریرطبری کا کامل نسخہ تیس جلدوں میں آپ کے پاس موجود تھا۔ اب چھپ جانے کے بعد تو اس کی اہمیت نہ رہی، لیکن طباعت سے پہلے اس کتاب کے کل تین نسخے ساری دنیا میں پائے جاتے تھے، جن میں ایک نسخہ شکرانواں کا تھا۔ ہزار ہا ہزار روپے خرچ کر کے آپ نے اس کی نقل مدینہ منورہ کے کتب خانہ سے حاصل کی تھی۔ آپ کے کتب خانہ میں حافظ ابن قیم اور ابن تیمیہ کی تصنیفات کاقلمی ذخیرہ جتنا بڑا جمع ہو گیا ہے، شاید ہندوستان میں تو کہیں اتنا بڑا سرمایہ نہ ہوگا۔ حافظ ابن عبدالبر محدث کی کتابیں استذ کار اور تمہید آپ کے یہاں موجود ہیں۔ محلی ابن حزم جیسی نایاب کتاب کی چودہ جلدیں آپ کے یہاں میں نے دیکھی تھی۔ طباعت سے پہلے ان کا دیکھنا ہی میرے لیے باعث فخر تھا۔ [ملاحظہ ہو: پاک و ہند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت: 353/1]

“التعلیق المغنی شرح سنن الدار قطنی” کی طالیف میں علامہ ابو الطیب شمس الحق ڈیانوی کے پیش نظر سنن دارالقطنی کے جو تین نسخے تھے ان میں سے ایک نسخہ کتب خانہ مولانا رفیع الدین (شکرانواں) سے منگوایا تھا۔
اس کے علاوہ مولانا ممدوح کے کتب خانے میں جو نو درات موجود تھے ان میں:

لو امع الا ستر شاد فی الفرق بین التوحید والا لحادْٗ اقتضاء الصراط المستقیمْٗ منھاج السنۃْٗ کتاب العقل و النقلٗ کلھا الشیخ الا سلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہْٗحاری الا رواح ٗ ْْ الطرق الحکمیۃٗ ْْ مدارج السا لکینْٗ اغا ثۃ اللھفانْٗکلھا للامام الحافظ ابن قیم الجوزیۃْٗ شرح سنن ابن ماجہ للحافظ مغلطائی المتوفیْٗ تلخیص الحبیرْٗ الا صابۃ فی تمیذ لصحابۃ ْٗ فتح الباریْٗ تھذیب التھذیبْٗ لسابن المیذانْٗ کلھا للعلامۃ ابن حجر العسقلانیْٗ الجذء من الثانی من المو تلف والمختلفْٗ للامام دار قطنیْٗ الجذء الثانی من کتاب الکشف لمشکل الصحیحینٗ لابن الجوذیٗ شرح القیمہ الحدیثْٗ للعراقیْٗ طبقات القراءْٗ میذان الاعتدالْٗ کلھما للحافظ الذھبیْٗ مسند ابی داود الطیالسیْٗ تفسیر الکشافْٗ فتح العلام بشرح الاعلام باحادیث الاحکامْٗ لقاضی ابی زکریا یحییٰ الانصاریْٗ احیاء العلوم الدینٗ للغذالیْٗ معالم التنذیلٗ للامام البغیْٗ جامع الصغیرٗ للسیوطی۔۔۔وغیرھا شامل ہیں۔

مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوریؒ 1919ء میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: صوبہ بہار میں کتب حدیث و تفسیر کے دو جید کتب خانے موجود ہیں۔ ایک ڈیانواں مولانا شمس الحق صاحب مرحوم کا اور دوسرا شکرانواں مولوی رفیع الدین صاحب مرحوم کا۔ میرے خیال میں اب دونوں معرض خطر میں ہیں۔ [ہفت روزہ ایل حدیث امرتسر: 13 اکتوبر 1919ء]

افسوس کہ 1947ء کے فسادات میں مولانا رفیع الدین کا کتب خانہ ضائع ہو گیا۔ جبکہ علامہ شمس الحق کے کتب خانے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا البتہ جو کتابیں اغیار کی دست برد سے رہ گئی تھیں وہ مولانا حکیم محمد ادریس بن شمس الحق محدث ڈیانوی نے مولانا ابو الکلام آزاد کے مشورے پر خدابخش لائبریری پٹنہ کے حوالے کر دیں، جہاں آج بھی یہ کتا بیں ڈیانواں کلکشن کے تحت مندرجہ ہیں۔
مولانا شکرانوای بڑے وسیع النظر اور وسیع المشرب تھے، ان کا حلقہ روابط مختلف طبقوں میں پھیلا ہوا تھا، عظیم آباد کے علماء، فضلاء،شعراء، ادباء اور وکلاء سب ہی ان کے در دولت پر حاضر ہوتے اور مولانا بھی ان سے اپنے مراسم نبھاتے۔ بہار کے مشہور شاعر سید فضل الحق آزاد سے بڑے روابط تھے۔
مولانا کو حدیث کے علاوہ فقہ سے بھی گہری مناسبت تھی، مولانا ابو سلمہ لکھتے ہیں: مولانا سلفی اگر اہل حدیث تھے مگر فقہ سے بدکتے نہیں تھے(2) بلکہ اس سے طبعی مناسبت تھی۔ صوبہ کے مشہور شاعر علامہ آزاد نے اپنے ایک قصیدہ میں اس طرف اشارہ بھی کیا ہے۔
فخر القرآن و اماثل ذات او                         ایں چنیں ذاتے دریں ایام

                           عالم فرزانہ دور زماں                         ہم فقیہ و ہم محدث بے گماں
یہی وجہ ہے کہ مولانا کے ہاں کتب فقہ کا بھی انبار لگا ہوا ہے۔ [ماہنامہ برہان دہلی جنوری 1957ء]

مولانا رفیع الدین کا شمار بلند پایہ ارباب علم میں ہوتا ہے۔ اپنے معاصر علماء سے مخلصانہ روابط استوار تھے۔ شکرانواں کے قریب ہی ایک گاؤں ڈیانواں کے نام سے آباد ہے جسے محدث کبیر علامہ شمس الحق صاحب عون؛ العبود کے وطن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ مولانا رفیع الدین اور محدث ڈیانوی نہ صرف ایک ہی سلک علم کے فیض یافتہ تھے بلکہ ہمشرب و ہمذوق بھی تھے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب پاک و ہند میں مسلمانوں کانظام تعلیم و تربیت میں ان بزرگوں کے باہمی روابط سے متعلق ایک بڑی غیر زمہ دارانہ بات سپرد تحریر کی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
واللہ عالم یہ کہاں تک صحیح ہے کہ شرح عون المعبود جو غازیۃ المقصود کا خلاصہ ہے مولانا شمس الحق ڈیانوی نے اس کی تالیف میں مولانا رفیع شکرانوی کی شرح ابو داؤد سے بہت نفع اٹھایا، لیکن افسوس کہ خود مولانا شکرانوی کی شرح ضائع کرادی گئی یا ہوگئی۔[پاک و ہند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت: 353/1]
حقیقت حال کا اظہار تو ہم آئندہ سطور میں کریں گے، لیکن یہاں ذرا موضوع سے ہٹ کر قارئیں گرامی کی خدمت میں مولانا مناظر احسن گیلانی کے متاع فکر و تحقیقات علم سے متعلق ان ک صفات ثلاثہ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ مولانا گیلانی بلاشبہ وسیع العلم اور وسیع النظر اصحاب علم سے تھے۔ لیکن ان کی علمی و فکری زندگی کا یہ بہت بڑا المیہ ہےکہ ان میں فاطمیت، مقلدیت اور بہاریت کا مادہ حد سے زیادہ تھا۔ نکتہ آفرینی اور بات سے بات نکالنے کا جو ذوق مبدء فیض نے انہیں دیا تھا اور اس میں معدودے چند ہی ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
حقیقت حال سے متعلق مولانا گیلانی کے ہمشرب اور بہار ہی کے ایک جلیل القدر عالم مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری لکھتے ہیں:
ہماری طرف یہ مشہور ہے کہ ابو داؤد کی شرح کا خیال اولاً مولانا رفیع الدین شکرانوی کو ہوا جس کی بھنک مولانا ڈیانوی کو لگی اور اس کی طرف مبادرت کر کے دو شرحوں کی طرح ڈال دی جس کا قلق مولانا شکرانوی کو تاحیات رہا لیکن حق یہ ہے کہ اس کی کوئی اصلیت نہیں ممکن ہے کہ مولانا شکرانوی کو خیال ہوا ہو مگر اس کا کوئی اثر مولانا ڈیانوی نے نہیں لیا۔[ماہنامہ برہان دہلی جولائی 1951ء]
عام طور پر سنن ابی داؤد سے متعلق مولانا شکرانوی کی جس تصنیف کا ذکر ملتا ہے اس کا نام رحمۃ الودود علیٰ رجال سنن ابی داؤد ہے اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ سنن ابی داؤد کے رجال سے متعلق ہے۔ مولانا ابو سلمہ نے مولانا شکرانوی کی مساعی سے طبع ہونے والی کتب علمیہ میں سنن ابی داؤد کا بھی شمار کیا ہے اور وہ بھی شروح و حواشی کے ساتھ طبع ہو ا تھا۔ [ملاحظہ ہو:ماہنامہ برہان دہلی جنوری 1957ء]

ان تصریحات کے بعد قارئین گرامی بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مولانا شکرانوی کی شرح ضائع کرادی گئی یا ہوگئی۔ کی کیا حقیقت ہے؟
دو بزرگوں کے درمیان تقابل و مقارنہ کچھ محمود عمل نہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا شمس الحق ڈیانوی کی پوری زندگی کسب علم اور نشر علم سے معمور رہی اور علم حدیث کی جو گراں قدر خدمت انہوں نے ایک کو ردہ دیہات میں رہ کر انجام دی اس کا مقابلہ تیرہویں و چودہویں صدی ہجری کے معدودے چند ہی محدثین کرسکیں گے۔
بہر حال یہ کچھ جملہ معترضہ تھے جن کا ذکر واقعات کی صحیح تصویر پیش کر نے کے لیے ضروری تھا۔ اب ہم دوبارہ مولانا رفیع الدین شکرانوی کی حیات اور ان کی تگ و تاز کے تذکرے کی طرف مراجعت کرتے ہیں۔
مولانا شکرانوی صاحبِ علم و قلم تھے، ان کے کلک گو ہر بار نے جن کتابوں کی تصنیف کی گو آج وہ ہمارے سامنے نہیں اور نہ ہی ان کے قلمی نسخوں سے آگاہی ہوتی ہے تاہم جن ناموں سے ہمیں آگاہی ہو سکی وہ یہ ہیں:
1۔رحمۃ الودود علی رجال سنن ابی داؤد
2۔تعلیقات علی سنن النسائی
3۔کتاب الاذکار
مولانا صاحب تدریس بھی تھے، ان کے فیض علم سے ان کے دونوں صاحبزادوں مولانا محمد ابراہیم شکرانوی و مولانا حافظ ضیاءالدین شکرانوی، ان کے پوتے حکیم عبدالسلام شکرانوی کے علاوہ مشہور دیو بندی عالم دین مولانا سید اصغر حسین شارح جامع ترمذی اور مولانا عبداللہ خراسانی مستفید ہوئے۔
مولانا شکرانوی کے دونوں صاحبزادے حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے بھی فیض یافتہ تھے، بڑے صاحبزادے مولانا محمد ابراہیم بارایٹ لاء تھے، انہوں نے مولانا کی زندگی ہی میں حیات جاوداں کا سفر اختیار فرمایا بوڑھے باپ کے لیے یہ بہت بڑا صد مہ تھا جسے ایک صابر مومن کی طرح بر داشت کیا، مولانا محمد ابراہیم کےمنجھلے صاحبزادے حکیم عبدالسلام 1900ء میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنے جد بزر گوار کے زیرِ سایہ شعور کی منزلیں طے کیں، انہی سے دینی کتب پڑھیں۔ دہلی میں جامعہ طیبہ میں داخل ہوئے وہاں مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے سائیہ عاطفت میں رہ کر طب کی تعلیم حاصل کی۔ فراغت کے بعد حکیم اجمل خاں کے مشورے پر گودھرا گجرات تشریف لے گئے اور طبی خدمات انجام دینے لگے، وہیں 1966ء کو وفات پائی۔
مولانا رفیع الدین شکرانوی دیار ہند کے جلیل القدر عالم، رفیع المرتبت مفسر و محدث اور فقیہ تھے، ان کا انتقال 1338ھ بمطابق 1919ء کو شکرانواں میں ہوا۔

حواشی

مولانا محمد احسن بن شجاعت علی گیلانی 1312ھ میں پیدا ہو ئے، نسباً حسینی تھے، متاہل ہوجانے کے بعد کسبِ علم کی طرف متوجہ ہوئے، کتب متو سطات مولانا قاضی نعمت اللہ نبی نگری بہاری سے پڑھیں، کتب معقو لات مفتی واجد علی بنارسی اور مولانا فضل الحق خیر آبادی سے پڑھیں۔ مولانا اکبر علی رام پوری اور مولانا عالم علی محدث نگینوی سے فقہ و حدیث کی تحصیل کی۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد مسند تدریس آراستہ کی۔ تصانیف میں رسالہ و جودرابطی، حاشیہ بحرالعلوم اورحل العقود کا ذکر ملتا ہے۔ 1301ھ میں گیلان میں وفات پائی۔ (حالات کے لیے ملاحظ ہو :نذھۃ الخواطر:8/7/4، تذکرہ مسلم شعرائے بہار :4/219)
علم فقہ کتب و سنت سے ثابت شدہ مسائل کا علم ہے لہٰذا ایک اہل حدیث کا اس سے بدکناچہ معنی دارد، علمائے اہل حدیث نے کتب فقہ پر گراں قدر تحریری سرمایہ بھی جمع کیا ہے لیکن اصحاب الحدیث کے یہاں فقہ الحدیث کی اصطلاح زیادہ مستعمل ہے۔

[ اصحاب علم وفضل] (صفحہ 45 تا 55)
مؤلف: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

یہ بھی پڑھیں: تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے؟