مولانا سلیم چنیوٹی رحمہ اللہ بھی چل بسے
آہ ! مولانا سلیم چنیوٹی رحمہ اللہ بھی چل بسے..
گزشتہ روز بدھ 29/مئی 2024ءمطابق 20/ذوالقعدہ 1445ھ سوشل میڈیا پر محترم جناب سلیم چنیوٹی صاحب کی خبر وفات پڑھ کر بڑا دکھ ہوا ،انا لله وانا الیہ راجعون ۔
ایک ہفتہ قبل چنیوٹی صاحب کی شدید علالت کی خبر پڑھ کر جھٹکا سا لگا تھا ،ان کے لیے صحت وعافیت کی دعا کی ،لیکن رب ذوالجلال والاکرام کی قدر و قضا کے اٹل فیصلے ٹل نہیں سکتے، موصوف جہان فانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئے ۔والبقاء لله وحدہ ۔
محترم چنیوٹی صاحب بڑے ملنسار ، وضع دار، نرم گفتار، ہمدرد،شریف النفس ،باہمت اور نفیس انسان تھے۔
ممدوح گرامی سے راقم کی پہلی ملاقات 09/جون 2009ء کو “الاعتصام” کے دفتر میں ہوئی،اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ راقم بروز منگل علی الصبح مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے ملاقات کرکے اردو بازار پہنچا ، وہاں پر برادر گرامی مولانا ابو بکر قدوسی اور مولانا عمر فاروق قدوسی اصحاب مکتبہ قدوسیہ،
پھر مولانا سرور عاصم صاحب مکتبہ اسلامیہ اور طاہر نقاش صاحب مکتبہ دار البلاغ سے ملنے کے بعد شیش محل روڈ کا رخ کیا اور مکتبہ السلفیہ پہنچا اور وہاں پر حماد شاکر اور حناد شاکر اصحاب مکتبہ سلفیہ سے ملاقات کی ،بعد ازاں دفتر “الاعتصام “پہنچا اور وہاں پر موجود ایک صاحب سے ملا ،ان سے تعارف ہوا تو عقدہ کھلا کہ موصوف سلیم چنیوٹی صاحب ہیں،وہ کھڑے ہو کر تپاک سے ملے ،کچھ دیر گفتگو جاری رہی ۔راقم نے
اپنی کتب تبصرے کے لیے انہیں دیں ،پھر انہوں نے مکتبہ سلفیہ دیکھایا اور مولانا حماد الحق نعیم اور مولانا موھب الرحیم سے ملاقات کروائی ۔نماز ظہر مکتبہ السلفیہ کی مسجد میں ادا کی ،بعد ازاں مولانا حافظ احمد شاکر رحمہ سے ملاقات ہوئی،کچھ دیر ان سے ہمکلام رہا ،چنیوٹی صاحب نے تعارف کروایا کہ ان کا مضمون(حدیث چین کی تحقیق )” الاعتصام ” میں شائع ہوا ہے ۔
حافظ صاحب بڑے خوش ہوئے ،مضمون نگاری کی مزید تلقین فرمائی ۔
بعد ازاں چنیوٹی صاحب سے رسالہ” الاعتصام “کا سالانہ اجراء کروایا اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کے گھر کا پتہ لے کر ان کی طرف رخت سفر باندھا ۔
یہ ان سے پہلی ملاقات تھی ،اس کے بعد دو تین ملاقاتیں ہوئیں ،بڑی چاہت سے ملتے تھے ،جب بھی کوئی مضمون لکھتا ،انہیں ارسال کر دیتا ،جسے وہ شائع کروا دیا کرتے تھے ۔
اسلامی اور جماعتی رسائل میں رسالہ “الاعتصام “کو جو اہمیت حاصل ہے ،وہ کسی صاحبِ علم سے مخفی نہیں ہے،اس موقر رسالہ سے راقم نے بہت کچھ سیکھا۔ ناچیز کے اکثر مضامین اسی موقر رسالے میں شائع ہوئے۔
بات ہمارے ممدوح سلیم چنیوٹی رحمہ اللہ کی ہورہی تھی ،درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر ان سے ملاقات کی داستان چل نکلی ۔
مولانا موصوف پاکستان کے معروف شہر چنیوٹ میں 1966ء کے پس وپیش پیدا ہوئے ،اسی نسبت سے ان کے نام کے ساتھ چنیوٹی لکھا جاتا تھا ۔
آپ کے والد گرامی محمد عبداللہ مذہبی انسان تھے ۔صوم وصلاۃ کے پابند تھے ۔انہوں نے بچوں کی دینی پرورش کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔
محترم سلیم صاحب نے ابتدائی دینی تعلیم کے ساتھ مڈل تک عصری تعلیم گورنمنٹ اسلامیہ سکول چنیوٹ سے حاصل کی ۔
بعد ازاں جماعت کے مشہور ادارے جامعہ سلفیہ فیصل کا رخ کیا اور یہاں کچھ عرصہ دینی تعلیم حاصل کرتے رہے لیکن والد گرامی کی علالت طبع کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ برقرار نہ رکھ سکے ۔
غم روز گار کشاں کشاں لاہور لے آیا ۔بلدہءلاہور جو علم وادب کا گہوارہ ہے ،
اس شہر میں نامی گرامی ہستیوں نے شہرتِ دوام حاصل کی۔
لاہور میں مولانا نعیم الحق نعیم رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی ،جو دوستی میں بدل گئی ۔مولانا نعیم الحق رحمہ اللہ کی کاوش سے جماعت اہل حدیث کے معروف ادارے “دار الدعوۃ السلفیہ”میں ملازم ہو گئے۔
رفتہ رفتہ علم وادب سے شغف بڑھتا گیا اور جماعت کے مشہور رسالے “الاعتصام “کے منیجر مقرر ہوئے۔
مجلہ “الاعتصام “کی انتظامی ذمہ داریاں کے ساتھ ساتھ مطالعہ کتب بھی جاری رکھا، پھر مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ،مولانا حافظ نعیم الحق نعیم ،
جناب علیم ناصری اور مولانا حافظ احمد شاکر کی زیر تربیت تحریر کا عمدہ ذوق پیدا ہوا اور تبصرہ نویسی اور مضمون نویسی میں نمایاں مقام حاصل کر لیا ۔
مجلہ “الاعتصام “میں تبصرہ کتب کے عنوان سے آپ کے عمدہ تبصرے شائع ہوتے رہتے تھے ۔راقم کی بعض کتابوں ورسائل پر چینوٹی صاحب کے تبصرے شائع ہوئے۔جس سے ان کی تبصرہ نگاری میں مہارت تامہ ظاہر ہوتی ہے ۔علاوہ ازیں علمائے کرام اور وفیات الاعیان کے اعلانات پر مشتمل ان کے مختصر اور معلوماتی شذارت رسالہ مذکورہ میں شائع ہوتے رہتے تھے ،جس سے ان کی بلند فکری اور بیدار مغزی ظاہر ہونے کے ساتھ علمائے کرام سے مضبوط تعلقات کی نشاندھی ہوتی ہے۔
مجلہ” الاعتصام “کے علاوہ جماعت کے دیگر رسائل وجرائد مثلاً ہفت روزہ “اہل حدیث”، “تنظیم اہل حدیث”،
” صحیفہ اہل حدیث” اور مجلہ” تفہیم الاسلام”
میں آپ کے رشحات قلم کی جولانیاں نمایاں ہوتی رہتی تھیں،جس سے آپ کی صحافتی خدمات واضح ہوتی ہیں۔
چنیوٹی صاحب موصوف ایک محنتی اور باہمت صحافی تھے، مشکل حالات میں بھی قلم وقرطاس سے وابستہ رہے ۔شب وروز ایک کرکے خوب محنت کی ، قلم کی مزدوری سے اپنا اور اہل خانہ کا پیٹ پالا اور اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
موصوف بڑے صابر اور شاکر تھے ،اپنے بیٹے کی گمشدگی پر کبھی زبان پر حرفِ شکوہ نہیں لائے ۔جب بھی ان سے بات ہوتی ،صبر کا دامن کبھی نہ چھوڑتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے قوی امید رکھتے تھے۔
محترم چینوٹی صاحب کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ علمائے کرام سے محبت و عقیدت کا رشتہ قائم رکھے ہوئے تھے ۔ لال اور بلیک میلنگ صحافت کے اس دور میں ان کی دینی صحافت بلا شبہ ایک بلند مقام رکھتی ہے۔وہ ایک صاف گو اور حق گو صحافی تھے۔
مولانا موصوف نے نرینہ اولاد میں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں اپنے پیچھے یادگار چھوڑیں۔ بیٹوں میں فیصل سلیم، سعود سلیم ،اسامہ سلیم ( جو کچھ سال قبل لا پتہ ہو گئے تھے ،ابھی تک ان کا سراغ نہیں ملا،انا لله وانا الیہ راجعون) طلحہ سلیم اور مغیرہ سلیم قابل ذکر ہیں۔
مولانا رحمہ اللہ کے دو جنازے ہوئے ،پہلا جنازہ لاہور میں آپ کے دوست مولانا حافظ عبد الوحید صاحب نے پڑھایا،جس میں بہت سارے لوگوں نے شرکت کی ۔
اور دوسرا جنازہ آپ کے آبائی علاقے چنیوٹ میں شیخ الحدیث مولانا عبد الرحمن ضیاء حفظہ اللہ کی اقتداء میں ادا کیا گیا ،جس میں اہل علاقے کے بکثرت لوگوں نے شرکت کی اور آپ کو محلے کے قبرستان میں ہمیشہ کے لیے سپردِ خاک کر دیا گیا ۔
اللہ کریم آپ کی خدمات قبول فرمائے اور آپ کی کامل مغفرت فرما کر جنت میں بلند مقام پر فائز کرے اور جملہ لواحقین ،عزیز واقارب اور ادارہ “الاعتصام” کے منتظمین کو صبرِ جمیل کی توفیق بخشے۔
آمین یا رب العالمین ۔
#کتبہ : ریاض احمد عاقب #30مئی/2024ء #