مولانا عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ کا تعارف

كَمَاأَنَّ الْغَيْثَ يُحْيِي الْبَلَدَالمَيِّتَ فَكَذَا عُلُومُ الدِّينِ يُحْيِي الْقَلْبَ الْمَيِّتَ

جیسے بارش مردہ شہر میں زندگی پیدا کردیتی ہے ایسے ہی دین کے علوم وفنون مردہ دل میں زندگی ڈال دیتے ہیں۔

شیخ الحدیث مولانا عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی) کا تعارف
نام ونسب
عمر فاروق بن الشيخ ابو سعید عبد العزیز السعیدی السلفی بن میاں دین محمد
ولادت
1951ء بمطابق 1371
وطن
منکیرہ وضلع بھکر پنجاب پاکستان (بمقام رحیم یار خان چک 5)
سعیدی کی نسبت
شیخ محترم کے والدِ محترم مدرسہ عربیہ السعیدیہ دہلی سے فیض یافتہ تھے، وہاں کے فضلاء ’سعیدی’ کہلاتے تھے۔ اسی مناسبت سے مولانا عبد العزیز رحمہ اللہ اپنے نام کے ساتھ سعیدی لکھتے اور بعد میں یہی ان کا خاندانی نسبت اور تعارف بھی بن گیا، چنانجہ اب اولاد و احفاد سب کے نام کے ساتھ ’سعیدی’ کا لاحقہ استعمال ہوتا ہے۔
ابتدائی تعلیم
شیخ محترم کو سب سے پہلے تو ان کے والد گرامی نے نماز روزہ اور روزمرہ کی دعائیں بڑے اہتمام سے یاد کروائیں۔ قرآن مجید پڑھایا۔ طہارت اورپاکیزگی کی تلقین فرمائی روزے رکھنے کا عادی بنایا۔ اور آخری دم تک ان کی تعلیم وتربیت میں فکرمند بلکہ سر گردان رہے۔ رحمہ اللہ تعالی رحمۃ واسعۃ۔
عصری تعلیم
آپ نے منکیرہ مڈل سکول سے مڈل اور پھر نویں دسویں ایک ہی سال میں نیشنل ہائی سکول بھکر سے کی۔
دینی تعلیم کا سفر
1966ء میں میٹرک کر لینے کے بعد والد گرامی مولانا عبد العزیز سعیدی نے اپنے لائق فرزند کو تحصیل شجاع آباد ضلع ملتان کے قصبہ جلال پور پیر والا میں شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ کے مدرسہ دار الحدیث محمدیہ میں پہنچا دیا۔ ممدوح نے انتہائی محبت اور شفقت کے ساتھ ابتدا سے کتاب الصرف کا سبق شروع کروایا اور جہاں تک ممکن ہوا اہم اہم اسباق خود پڑھائے۔ اس طرح سات سال اس ادارے میں رہے۔ سالانہ امتحانات کے لیے مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ لاہور سے تشریف لایا کرتے تھے۔
شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ اپنے لائق شاگرد سے خصوصی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ شیخ محترم کا اردو خط اچھا تھا اس لیے فتوی نویسی کے لیے آپ کو طلب فرماتے اور فتاوی املا کرواتے۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے اس دور میں جو رسائل وغیرہ تحریر فرمائے وہ بھی شیخ محترم کو ہی املا کروائے۔ آخری سالوں میں کتاب التوحید بخاری کی عربی شرح بھی ممدوح ہی کو لکھنے کا شرف حاصل رہا۔ بلکہ آخری تعلیمی سالوں میں تربیتی نقطہ نظر کے تحت نو وارد طلبہ کے ابتدائی سبق بھی پڑھانے کے لیے آپ کو دیے جاتے رہے۔ جس سے آپ کی تدریس کی مشق ہوتی رہی۔ اسی دوران میں ایف اے اور فاضل عربی کے امتحان بھی پاس کرلیے، بی اے کی تیاری تو کرتے رہے مگر امتحان نہ دے سکے۔
جمعیت طلبہ اہلحدیث
1969ء میں شوق پیدا ہوا کہ جمعیت طلبہ اہلحدیث پاکستان کا احیاء کیا جائے چنانچہ تگ و دو شروع کی اور اس کے ناظم اعلیٰ بھی بن گئے۔ حضرت الشیخ سلطان محمود رحمہ اللہ اس سے ناراض تو ہوئے اور اسباق کا نقصان بھی ہوا مگر اس کا عملی زندگی میں یہ عظیم ترین فائدہ ہوا کہ اس قسم کی گروہ بندی، سیاست کاری اور منصب طلبی سے طبیعت بالکل اچاٹ ہو گئی اور اپنے کام سے کام رکھنے پر قانع ہو گئے۔
آپ کے والدِ محترم کا انتہائی شوق تھا کہ صاحبزادہ مدینہ یونیورسٹی میں جا کر تعلیم حاصل کرے۔ تو اسی شوق میں 1973ء میں جلال پور سے فارغ ہونے کے بعد کراچی میں دارالحدیث رحمانیہ (سولجر بازار ) میں داخلہ لیا۔ (کیونکہ مشہور تھا کہ رحمانیہ کی سند سعودیہ میں معتبر ہے) چنانچہ یہاں حضرت الاستاذ جناب حاکم علی رحمہ اللہ سے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ رحمانیہ کے قریب ایک علم دوست ایڈووکیٹ خالد الحق صاحب کی ذاتی لائبریری تھی، اس میں بھی خاصا جانا آتا رہتا تھا، چنانچہ وہاں بیٹھ کر آپ نے اپنی صلاحیت اور ذوق کے مطابق خوب فائدہ اٹھایا۔
رحمانیہ میں شیخ محترم فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کے ہم جماعت بھی رہے، جو کہ دور طالب علمی سے ہی بڑے فائق تھے۔ سالانہ تعطیلات میں ممدوح کے ایک استاذ جناب مولانا عبد العزیز صاحب رحمہ اللہ ان کے کا غذات مدینہ منورہ لے گئے مگر بات نہ بنی۔ تو مدینہ جانے کے لیے جامعہ سلفیہ فیصل آباد کی سند حاصل کرنے کا پروگرام بنا لیا اور والدِ محترم سے مشاورت کرکے فیصل آباد کی طرف رختِ سفر باندھا۔
جامعہ سلفیہ فیصل آباد
جامعہ سلفیہ میں آخری جماعت میں داخلہ لے لیا، اچھے نمبروں میں پاس ہوئے۔ مگر انتظامیہ نے فیصلہ سنایا کہ یہ طالبعلم (عمر فاروق) یہاں کا سابق طالب علم نہیں ہے اس لیے اس کی درخواست مدینہ نہیں بھیجی جاسکتی۔ اس طرح درخواست تو نہ گئی مگر شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق رحمہ اللہ نے اعتماد فرمایا اور اگلے سال میں جامعہ میں تدریس کے لیے منتخب فرما لیا گیا۔ چنانچہ سال ڈیڑھ تدریس کی اور ساتھ مدینہ میں داخلہ کی کوشش بھی جاری رکھی۔
مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ
بالآخر مدینہ کے لیے درخواست بھیجی گئی اور 1977ء کے آخر میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے بلاوہ آ گیا۔ دل کی مراد پوری ہوئی، آپ کے والدِ محترم کی خوشی آپ سے بھی بڑھ کر تھی۔
کتابوں سے تعلق اور لگاؤ
جامعہ اسلامیہ میں کلیۃ الحدیث الشریف میں داخلہ ہوا۔ کتابوں سے محبت آپ کے والدِ محترم کی صحبت اور تربیت کا نتیجہ تھی۔ اس لیے جامعہ سے ملنے والے وظیفہ سے جہاں تک ممکن ہوا علمی کتابیں ہی خریدیں۔ مکہ میں شیخ محترم کے ابا جان کے دوست حافظ فتحی رحمہ اللہ کا اعتماد حاصل رہا اور انھوں نے بھی دل کھول کر علمی مراجع ہدیہ فرمائے۔ اس عرصہ میں تقریبا ہر ماہ عمرہ کی سعادت ملتی رہی۔ پاکستانی ساتھیوں نے شیخ محترم کو حج کمیٹی کا امیر بنا دیا اس طرح حج کے معاملات میں اپنے احباب کی خدمت کا اعزاز بھی حاصل رہا۔
1981ء مدینہ منورہ میں آپ کا آخری سال تھا۔ آخری سال کا مقالہ شیخ الاسلام ثناء اللہ الأمر تسرى حياته وخدماته ” کے عنوان پر لکھا۔ اس میں جناب شیخ عبد القادر صاحب سندی رحمہ اللہ آپ کے مشرف تھے۔ اس عنوان کی وجہ یہ ہوئی کہ شیخ محترم کے ایک حنفی دیوبندی ساتھی نے اپنا عنوان یہ پیش کیا “خدمات الديوبنديين في رد القادیانیۃ ” کچھ اسی قسم کا عنوان تھا۔ شیخ محترم کے علم میں جب یہ بات آئی تو غیرت میں آکر ممدوح نے اپنا مندرجہ بالا عنوان پیش کر دیا جو بحمد اللہ منظور ہوگیا۔ اس طرح شیخ محترم کو تفصیل سے حضرت الامام کی سیرت پڑھنے اور لکھنے کا فائدہ ہوا۔ آخری امتحانات کے دن تھے کہ شیخ محترم کے ابا جان کا جام حیات لبریز ہوگیا اور وہ ان کو مدینہ منورہ کی دستارِ فضیلت سے مشرف نہ دیکھ پائے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
وہاں سے واپسی پر اللہ تعالیٰ کے فضل خاص کے بعد اساتذہ کے اعتماد کی بنا پر ممدوح کو جامعہ اسلامیہ کی طرف سے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تدریس کیلیے تقرر کا شرف حاصل ہو گیا۔
شیخ محترم کی علمی اسانید اور اجازۃ الروایۃ
(1) الشهادة العالية. دار الحدیث الحمد یہ جلال پور پیر والا تحصیل شجاع آباد ضلع ملتان (۱۹۷۳ء)
(2)شهادة الفراغ دار الحديث الرحمانیہ کراچی (۱۹۷۴ء)
(3)الشهادة العالية من الجامعة السلفية بفیصل آباد (۱۹۷۶ء)
(4)الشهادة العالمية من كلية الحديث الشريف والدراسات الإسلامية بالجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة (۱۹۸۱ء)
(5)الشهادة العالية وفاق المدارس السلفیہ پاکستان (۱۹۸۴ء)
اجازة الرواية
(6)حضرة الشيخ المحدث مولا نا سلطان محمود رحمہ اللہ تعالیٰ، جلال پور پیر والا میں ان سے سند حاصل کی۔
(7)حضرة الاستاذ الشيخ المحدث عبد الغفار حسن سے مدينہ منورہ میں دورانِ تعلیم اجازہ حاصل کیا۔
(8)حضرة الشيخ الأستاذ المحدث ثناء اللہ خان المدنی لاہور
(9)حضرة الشيخ المحدث حافظ عبد المنان عبد الحق نور پوری۔ گوجرانوالہ
(10)حضرة الشيخ المحدث محمد بن علي بن آدم بن موسى الأثيوبي الاستاذ في المدرسة الخيرية مكة المكرمة ١٤٣٥ .
(صاحب الذخيرة العقبي، شرح سنن النسائي)
علاوہ ازیں حضرة الشيخ الاستاذ المحدث مولانا حاکم علی صاحب رحمہ اللہ تعالی کراچی، مولانا محمد صدیق صاحب فیصل آبادی (انھیں اپنے گاؤں کرپالہ کی نسبت سے کر پالوی بھی کہا جاتا ہے) اور والد گرامی جناب مولانا عبد العزیز السعیدی کے سامنے بھی قراءتِ حدیث کا شرف حاصل ہوا مگر شعور نہ ہونے کی وجہ سے سندِ اجازہ حاصل کرنےکا خیال نہ آیا۔
علوم اسلامیہ میں مزید اساتذہ کرام
اگرچہ شیخ محترم کی اسانید کے ضمن میں آپ کے بعض اساتذہ کرام کا ذکر گزر چکا ہے، لیکن یہاں مزید کچھ اساتذہ کا تذکر کیا جاتا ہے:
(1) مولانامحمد رفیق اثری رحمہ اللہ
(2) مولانا اللہ یار خان صاحب
(3)محدث مولانا محمد اسحاق خائف صاحب
(4)مولانا عبد العزیز صاحب فیصل آبادی
(5)محمد صادق خلیل صاحب رحمہم اللہ تعالی جمیعا۔
(6) مولا نا قدرت اللہ صاحب فوق
(7)مولانا عبید الرحمن صاحب المدنی
کچھ عرب اساتذہ کرام
(8)فضیلة الشیخ محمد امان الجامی
(9)فضیلةالشیخ عبدالفتاح سلامه المصرى
(10)فضيلة الشيخ عبد الفتاح عاشور المصرى
(11)فضيلة الشيخ السيد الوكيل المصرى
(12)الشيخ سعدى البهائمي الشامی
(13)الشیخ محمود میره
(14)الشيخ احمد طه ريان المصرى
(15)فضیلة الدكتور ضیاء الرحمن الاعظمی الہندی
جو کہ تقریبا سب کے سب اللہ کے مہمان بن چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی بے پناہ رحمتوں سے نوازے۔
تدریس کا آغاز
چنانچہ چار سال تک اس ادارہ میں تدریسی فرائض سر انجام دیئے اور منکیرہ میں اپنے والدِ محترم کی تعمیر کردہ مسجد کی آبادکاری کا بھی کچھ انتظام ہوتا رہا۔ اسی دوران خیال آیا کہ ان کو منکیرہ میں مستقل اقامت اختیار کر کے مسجد آباد کرنی چاہیے اور علاقے میں بھی کوئی دعوتی کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ جامعہ سلفیہ سے استعفی دے کر منکیرہ آ گئے اور گزر بسر کے لیے اسٹیشنری کی دکان بنائی۔ کاروبار تو معمولی اور برائے نام ہی تھا۔ مسجد میں ان کی خدمات خطبہ جمعہ یا مناسب مواقع پر کوئی درس وغیرہ ہوتا تھا۔ اور علاقے میں تبلیغی دروس کا کام بھی کرنے کی کوشش کی۔ مگر چونکہ ممدوح کوئی خطیب دلپذیر نہ تھے اس لیے زیادہ کامیابی نہ ہوئی اور زیادہ مشغولیت اپنے ابا جی کے ورثہ کتب کے مطالعہ کی رکھی۔ مطالعہ سے جن نکات علمیہ سے آگاہ ہوتے ان کے اظہار کا ان کے پاس کوئی موقعہ نہ تھا، جس سے ان کے اندر بے چینی آتی کہ میں اپنے اس علم کا اظہار کہاں اور کیسے کروں۔ اور یہ بے قراری بڑھنے لگی، جبکہ دوسری طرف کاروبار میں بھی کوئی ترقی نہ ہو رہی تھی۔
جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی میں
اس لیے دو ہی سال بعد 1986ء میں ملتان آئے کہ کسی دینی ادارے میں تدریس کے لیے کوئی جگہ مل جائے ۔ یہاں اتفاق سے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے مولانا عائش محمد صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے پیش کش کی کہ جامعہ ابی بکر میں آجائیں ۔ بعد از مشورہ یہ پیش کش قبول کرلی۔ دکان ختم کر دی اور جولائی 1987ء میں جامعہ ابی بکر میں چلے آئے ۔ جامعہ کا ماحول بین الاقوامی قسم کا تھا۔ تقریبا پچیس ملکوں کے طلبہ ہوتے تھے اور تدریس اول تا آخر عربی میں تھی۔ البتہ درجہ متوسطہ کے اسباق اردو میں ہوتے تھے۔
فضیلتہ الشیخ محمد ظفر اللہ صاحب رحمہ اللہ مدیر عام اور حافظ مسعود عالم صاحب حفظہ اللہ مدیر التعلیم تھے۔ ان کے علاوہ جناب شیخ خلیل الرحمن لکھوی، جناب عطاء اللہ ساجد صاحب حفظہ اللہ وغیرہ پاکستانی اور دیگر عرب اساتذہ کی معیت میں یہاں بہت علمی اور پر لطف فضا قائم رہی۔
تدریس کے علاوہ انتظامی امور میں مدیر الامتحانات اور پھر 2000ء میں مدیر التعلیم کا منصب سپرد ہوا۔ اور صحیح بخاری شریف پڑھانے کی ذمہ داری بھی تفویض ہوئی۔
آپ نے جناب محمد ظفر اللہ صاحب مرحوم، پروفیسر عبد الحفیظ صاحب مرحوم، جناب عبد الله سرور صاحب اور پھر جناب ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا مرحوم کی سر براہی میں اپنے فرائض بخیر و خوبی سرانجام دیئے۔ ان بزرگوں کا اعتماد، ہم منصب اساتذہ کے علاوہ طلبہ کی بے پایاں محبت کو شیخ محترم اپنے لیے زندگی کا عظیم سرمایہ سمجھتے ہیں۔
الرحمہ انسٹیٹوٹ منڈی واربٹن میں
جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں رہتے ہوئے شیخ محترم اپنے اہلِ خانہ کو اس شہر کا باسی بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے، بچے بھی بڑے ہونے لگے تو ان کی خانہ آبادی وغیرہ کے مسائل اور کچھ دیگر عوارض کی بنا پر آپ وہاں اداس اداس رہنے لگے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مکتبہ دار السلام لاہور کے احباب جناب مولانا عبدالجبار صاحب اور حافظ عبد العظیم اسد صاحب نے دعوت دی کہ جامعہ مرآة القرآن والحدیث (للبنات ) وار برٹن (ضلع ننکانہ ) میں آ جائیں۔ یہ ادارہ طالبات کی دینی تعلیم و تربیت کا قدیم معیاری ادارہ ہے۔ شیخ محترم نے استخارہ کیا۔ گھر والوں سے مشورہ کیا ۔ اہلیہ کو لے کر آئے مدرسہ دیکھا دکھایا۔ اور بالآخر 2005ء کے آخر میں جامعہ ابی بکر سے استعفیٰ دے کر یہاں منتقل ہو گئے۔ کراچی میں رہتے ہوئے طالبات کو پڑھانے کے حق میں نہ تھے مگر حالات کے ساتھ سجھوتا کر لیا اور یہ تدریس قبول کر لی۔ یہاں اللہ تعالی نے ہر طرح اور ہر لحاظ سے عزت عطا فرمائی۔ پھر بعد میں بنین کے لیے معہدالرحمہ کا بھی آغاز ہو گیا، جس میں اللہ تعالی نے صدر نشینی بھی عطا فرما دی، صحیح بخاری شریف اور دیگر اہم اسباق پڑھانے کا اعزاز بھی بخشا۔
تصنیفی خدمات
جامعہ ابی بکر میں رہتے ہوئے ماڈل کالونی میں جامع الفاروق میں خطبہ جمعہ اور تبلیغی دروس کی خدمت بھی سر انجام دیتے رہے اس کے ایک زاویہ میں بیٹھ کر سنن ابی داود وغیرہ کے تراجم کئے۔ اور اسی طرح وار بٹن میں حافظ عبدالعظیم صاحب نے مسجد ریاض الاسلام کے ساتھ ان کو ایک کمرہ اور معتبر مصادر و مراجع بھی عنایت فرما دیے، جہاں بیٹھ کر آپ نے کئی ایک علمی و تصنیفی خدمات سر انجام دیں۔
آپ کی تصنیفات کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
《مطبوع کتب 》
(1)سنن ابی داود ترجمه و فوائد ۔
(2)جائز اور ناجائز تبرک۔ ترجمه “التبرك المشروع و غير المشروع د. على النفيع العلياني
(3)علوم الحدیث للشيخ محمد على قطب المصری کے رسالہ کا ترجمہ
(4)تیسیر اصول الحدیث للدکتور محمود الطحان، مصطلح کی معروف کتاب کا ترجمہ۔
(5)امثال اصطلاحات المحدثین۔ فضيلة الشيخ المحدث سلطان محمود صاحب کے رسالہ پر توضیحی تعلیقات۔
(6)حج نبوی ﷺ کا آنکھوں دیکھا حال۔ ترجمہ کیف حج النبي ﷺ ، تالیف الشیخ أبی تراب الظاہری۔
(7)فضائل اعمال۔ كفاية التعبد وتحفة التزهد ، حافظ عبد العظيم المنذری کے رسالہ کا ترجمہ
(8)الحطه في ذكر الصحاح الستة۔ نواب صدیق حسن خان صاحب کی علمی تالیف کا ترجمہ و تہذیب۔ بنام “فضیلت علم و علمائے حدیث”
(9)تبویب احادیث بلوغ المرام- کتاب مذکور کی ہر ہر حدیث کی عنوان بندی
(10)فقه کتاب وسنت ترجمه اللباب في فقه السنة والكتاب (الشيخ محمد صبحی حسن حلاق الصنعانی)
(11)احکام و مسائل خواتین علمائے عرب کے فتاوی خواتین کا ترجمہ۔
(12) نماز میں خشوع کیسے حاصل کریں۔ الشيخ صالح المنجد حفظہ اللہ تعالیٰ کے رسالہ کا ترجمہ۔
(13)فضائل طیبه طيبه مدینہ منورہ کے فضائل اور کچھ دیگر متعلقہ مسائل۔
(14)رحلة الصديق إلى البيت العتيق۔ نواب صدیق حسن خان صاحب کے رسالہ کی اردو تعبیر۔
(15)جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی۔ امام ابن رجب حنبلی کے رسالہ کا ترجمہ اور چند دیگر مقالات۔
(16)نونہالوں کے لیے اسلامی خطبات۔ بچوں کے لیے مختصر مشقی تقریریں۔
(17) خوش آمدید۔ مدارس اسلامیہ میں نئے سال میں آنے والے نئے طلبہ سے خطاب۔
(18)الإمام ثناء الله الأمرتسرى حياته و خدماته للإسلام و المسلمین ” کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔
شیخ محترم سے متعلق مزید تفصیلی معلومات کے لیے آپ کے برادر اصغر فضیلۃ الشیخ پروفیسر سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ کی کتاب ’تذکرہ سعیدیہ’ ملاحظہ کی جا سکتی ہے، جس میں آپ کے والدِ محترم اور خاندان کا تذکرہ خیر موجود ہے۔
اللہ تعالی شیخین کریمین کو اپنے والدین کے لیے بہترین صدقہ جاریہ، اور اولاد و احفاد کو اپنے خاندان کی علمی روایات کا آمین بنائے۔

●ناشر: حافظ امجد ربانی
● فاضل: جامعہ سلفیہ فیصل آباد
●مدرس: جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سندر لاہور

یہ بھی پڑھیں: ہیومن ملک بینک کے قیام کی شرعی حیثیت