سوال (180)
کیا کوئی دینی پروگرام یا درس اس نیت سے کروائے کہ اس کا اجر میت کو ملے گا۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب:
جی جائز ہے بشرطیکہ مروجہ تیجہ ، دسواں ، چالیسواں اور برسی کے مخصوص دنوں میں نہ کیا جائے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ الشیخ فہد انصاری حفظہ اللہ
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ”.[سنن ابي داؤد : 2880]
’’جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے : ایک صدقہ جاریہ ، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے ، تیسرا صالح اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے‘‘۔
اس روایت میں تین باتیں کہہ کر سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے ، امام البانی رحمہ اللہ کی مختصر “احکام الجنائز” دیکھ لیں ، دعا کوئی بھی کر سکتا ہے ، قرض کوئی بھی اتار سکتا ہے ، یہ تمام “ولد صالح” کے ساتھ خاص نہیں ہیں ، حج اور عمرہ بھی کوئی بھی کرسکتا ہے ، جہاں تک دینی پروگرام کا معاملہ ہے ، جیسا کہ اوپر شیخ نے وضاحت کردی ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ