سوال (4405)

جب کسی کے ہاں میت ہو جاتی ہے تو لوگ ان کے گھر جمع ہوتے ہیں اور میت کے لیے مغفرت و بخشش کی دعا مانگتے ہیں، یہ سنت کے عین مطابق ہے، دلیل اس کی یہ ہے۔
صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا جب دو یا تین دن گزر گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر میں تشریف لائے، جہاں صحابہ کرام بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور بیٹھ گئے اور صحابہ کرام سے فرمایا کہ ماعز بن مالک کی بخشش کی دعا کرو تو صحابہ کرام نے ( آپ الٹنے کی کیم کے ساتھ ) ما عز بن مالک کی مغفرت کی دعا مانگی۔ [مسلم شریف ج : 2 ص : 68]
اس حدیث پاک سے میت کے گھر صحابہ کرام کا جمع ہونا بھی ثابت ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کامیت کی دعائے مغفرت کیلئے میت کے گھر جانا اور دعا مغفرت کرنا بھی ثابت ہو گیا۔
اس حدیث کی وضاحت کریں۔

جواب

حدیث تو صحیح ہے، صحیح مسلم میں ہے، لیکن اس کا جو معنی لیا جا رہا ہے کہ میت کے گھر میں جمع ہونا، اس پر پھر فاتحہ خوانی کرنا یہ معنی کسی نے نہیں لیا ہے، نہ ہی میت کے لیے ایسا ہوا ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ جتنا حدیث میں بیان ہوا ہے، اس حوالے سے صحابہ کرام کے دو گروہ بن چکے تھے، بعض نے کہا ہے کہ ماعز ایسے ہیں، بعض نے کہا ہے کہ ماعز ایسے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، یہ کوئی بھی ذکر نہیں ہے کہ گھر تھے، یا مسجد میں، باقی قیاس یہ ہے کہ عام طور پر لوگ مسجد میں ہی جمع ہوتے تھے، روٹین تھی اس طرح صحابہ کرام جمع ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی توڑ دی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو، یہ مراد ہے، بس یہ بات حدیث سے ثابت ہوتی ہے، ہم بھی یہیں کہتے ہیں کہ میت کے لیے استغفار کرو، کسی نے کہا ہے کہ میت کے لیے اجتماعی استغفار کرتے ہیں، پھر بھی گنجائش دے دیتے ہیں، یہ کوئی روٹین کی بات نہیں تھی، بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموش توڑ کر استغفار کا کہا تھا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: شیخنا آپ نے مذکورہ حدیث سے اجتماعی دعا کا استنباط کیا ہے تو کیا اس حدیث کی بنیاد پر ہم اجتماعی دعا کروا سکتے ہیں؟
جواب: میں نے استنباط نہیں کیا، بلکہ شیخ عبد العزیز علوی رحمہ اللہ نے تحفہ المسلم میں لکھا ہے کہ کوئی بزرگ ہستی دعا کروا دے، یا کوئی ان سے اپیل کردے تو زیادہ سے زیادہ یہ گنجائش دے سکتے ہیں، یہ ہر وقت کے لیے نہیں ہے اور ہر جگہ کے لیے نہیں ہے، ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ استغفار کرو، کبھی کبھی بندہ دعا کروا سکتا ہے، لیکن یہ طریقہ غلط ہے کہ پچاس بندے آئے ہیں، وہ سب آ کر اجتماعی دعا کروائیں گے، یہ غلط ہے، ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ