سوال (5624)
میت کے لیے تین دن سوگ کرنا ہے، کیا اب اس کو لوگ 73 گھنٹے سمجھتے ہیں تو کیا یہ صحیح ہے؟ یا اس طرح درست ہے کہ قمری لحاظ سے شمار کیا جائے کہ جیسا کہ کوئی بندہ دو پہر کو فوت ہوجائے تو مغرب تک اس کا ایک دن شمار کیا جائے، باقی دو دن شمار کریں، اس کے علاؤہ یہ بتائیں کہ آخر میں خیرات کو کرتے ہیں، اس کی کیا حیثیت ہے؟
جواب
یہ آپ کی فراہم کردہ عبارت کا من و عن اردو متن ہے:
بہتر (72) گھنٹے کی کوئی بحث نہیں ہے، شریعت نے تین دن کی بات کی ہے۔ اس سے مراد تین شرعی دن بھی ہو سکتے ہیں جن کی ابتدا صبح صادق سے ہوتی ہے اور سورج غروب ہونے کے ساتھ تکمیل ہوتی ہے ۔ یا پھر اسے ہم شمسی اور عرفی اعتبار سے بھی لے سکتے ہیں کہ طلوع شمس سے لے کر غروب آفتاب تک ایک دن شمار ہوتا ہے۔ گھنٹوں کا حساب نہیں ہے، تو اب اس میں ایسا بھی نہ ہو کہ آپ نے بس اتنا نپا تلا کر دیا کہ سیکنڈ، منٹ اور اشارے کے پیچھے لگ جائیں، یہ بھی کوئی فہم نہیں اور نہ ہی اسے صحیح فہم کہا جا سکتا ہے۔
باقی رہا میت کے اہل خانہ کا صدقہ و خیرات، تو اس کے لیے دن کی تخصیص نہیں ہونی چاہیے۔ نہ ہی اسے اتنا زیادہ نمایاں اور اس انداز سے اختیار کرنا چاہیے کہ اہل بدعت سے مشابہت ہو جائے۔
اگرچہ ان کے لیے بہت کچھ جائز ہے، دعا کے ساتھ ساتھ صدقہ جاریہ کے طور پر، صدقہ و خیرات کے طور پر، لیکن دن، وقت، طلوع و غروب کی تخصیص کرنا صحیح نہیں ہوگا۔
نیت کا اعتبار کریں، خاموشی سے اللہ کی راہ میں کچھ دینا چاہتے ہیں تو دے دیں۔
اور اگر اس کے نام سے منسوب کر کے کوئی مشروع کام شروع کرنا چاہتے ہیں، جیسے کہ صدقہ جاریہ ہو جائے گا: فلاں مدرسہ، ادارہ، بیت المال یا غریبوں کے لیے، تو بھی ٹھیک ہے،
لیکن ایام کی تخصیص نہ کریں کہ فلاں دن کریں گے، اتنے گھنٹے کے بعد کریں گے، اتنے دن سے پہلے یا بعد کریں گے۔”
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: وہ بندہ جو دو بجے دو پہر کو فوت ہو جائے تو اس کے لیے کیسے کریں گے، باقی ہر کوئی تیسرے دن کچھ اپنی استطاعت مطابق خیرات کرتا ہے، جو بیٹھے ہوتے وہ کھاتے ہیں۔
جواب: دیکھیں میں نے پہلے وہی عرض کیا کہ سیکنڈ، منٹ اور اشارے کے پیچھے نہیں لگیں۔ تین دن کی بحث ہے، اب آپ لگانا چاہتے ہیں تو لگا لیں۔ جی دو بجے انتقال ہوا ہے، چلیں ٹھیک ہے، جی اگلے دن کے دو بجے تک، پھر یہ ایک دن پورا ہو جائے گا۔ ٹھیک ہے،
باقی رہ گیا اللہ آپ کا بھلا کرے، تقسیم کا معاملہ، تو وہ مجھے پتہ ہے، گاؤں دیہات میں، کیونکہ ہم بھی گاؤں دیہات کے ہیں، تو تین تین دن وہ پیڑی بیٹھتی ہے اور پٹی بیٹھتی ہے، یہ سب ہمارے نزدیک بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ اور پھر خاص تیسرے دن کا اہتمام، ہم اسے بلا شبہ بدعت سمجھتے ہیں، چاہے وہ صدقہ خیرات ہی کیوں نہ ہو، کھانا کھلانا اور تیجہ کرانا بدعت ہے۔
غیر اللہ کا نام تھوڑی وہاں لیا جاتا ہے، وہ کیا کرتے ہیں، وہ بھی قرآن و حدیث ہی پڑھ رہے ہوتے ہیں، تو یہ طریقہ خاص کہ تیسرے دن ہم نے یہ کرنا ہے، یہ بدعت ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ