سوال (139)
کیاميت کی طرف سے چھوڑے گئے روزوں کی قضا دی جا سکتی ہے ، اگر دی جا سکتی ہے تو شرعاً کس زمرے میں آتی ہے فرض ، واجب یا مستحب ؟ مزید یہ کہ کیا کوئی معین رشتہ دار ہی دے گا یا ہر کوئی دے سکتا ہے؟
جواب:
قضائی ضرور دینی چاہیے ، کوئی قریبی بھی قضا دے سکتا ہے۔ اگر کوئی قضا نہیں دے سکتا ہے تو فدیے کے طور پر کسی مسکین کو کھانا کھلایا جا سکتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
“فَمَنۡ كَانَ مِنۡكُمۡ مَّرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّهُ ؕ وَاَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَيۡرٌ لَّـکُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ”. [سورة البقرة: 184]
’’پھر تم میں سے جو بیمار ہو، یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے، پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور یہ کہ تم روزہ رکھو تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو‘‘۔
ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
“يُستحَبُّ لِوَليِّه أن يقضِيَه، فإن لم يفعَلْ، قلنا: أطعِمْ عن كلِّ يوم مسكينًا؛ قياسًا على صومِ الفَريضةِ”. [الشرح الممتع: 6/450]
’’میت کے ورثاء کے لیے مستحب ہے کہ وہ روزوں کی قضاء دیں ، اگر وہ قضاء نہ دے سکیں تو فرضی روزوں پر قیاس کرتے ہوئے فدیہ کے طور پر ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں‘‘۔
ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’اگر کوئی بندہ سفر یا مرض کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑ دیتا ہے ، پھر وہ بندہ صحتیاب ہوجاتا ہے ، لیکن روزے کی قضاء دینے سے پہلے فوت ہوگیا ہے تو اس کے ورثاء میں سے اس کا بیٹا ، والد ، والدہ یا بیٹی اس کی طرف سے روزے رکھ سکتے ہیں ، یہ بات اہم ہے کہ وہ روزوں کی قضاء ورثاء دیں ، اگر ورثاء کے علاؤہ کوئی اور احسان کرکے روزے رکھ دے تو کوئی حرج نہیں ہے ، اگر کوئی اس میت کی طرف سے کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا ہے ، تو میت کے ترکہ میں سے فدیہ کے طور پہ ایک مسکین کو کھانا کھلادیں‘۔ [مجموع فتاوى ورسائل العُثيمين]
فضیلۃ الشیخ فہد انصاری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ