سوال
بعض اہلِ علم کا یہ خیال ہے کہ میت کی طرف سے جیسے نماز نہیں پڑھی جا سکتی، ایسے ہی میت کی طرف سے قربانی بھی نہیں کی جا سکتی، میت کی طرف سے قربانی کا جانور خرید کر کسی سفید پوش کو صدقہ کر دیں، وہ قربانی کر لے، میت کو صدقے کا اجر مل جائے گا، اور مسکین کو قربانی کا۔ اس مسئلہ میں آپ مشائخ کرام کی کیا رائے ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
جی ہاں یہ بات بالکل درست ہے کہ قربانی دراصل زندہ لوگوں کا عمل ہے، فوت شدگان کا نہیں۔ میت کی طرف سے مستقل قربانی کرنا شریعت میں ثابت نہیں، بلکہ یہ صدقہ ہی کہلائے گا۔ میت کی اولاد اگر کوئی بھی نیک عمل کرتی ہے، تو وہ میت کے لیے صدقہ جاریہ ہی شمار ہو گا، خواہ وہ عمل قربانی کی صورت میں ہو یا کسی اور شکل میں۔
ہاں البتہ جب کوئی شخص خود قربانی کرے تو اس میں ثواب کی نیت کے اندر اپنے فوت شدہ والدین کو شامل کر سکتا ہے، اسکا ثواب ان تک پہنچے گا۔
لیکن میت کی طرف سے مستقل قربانی کرنا، جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں، شریعت سے ثابت نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسی کوئی قربانی ثابت نہیں جو آپ نے کسی میت کی طرف سے علیحدہ سے کی ہو، حالانکہ آپ کے کئی قریبی رشتہ دار، ازواجِ مطہرات، اور صحابہ کرام آپ کی زندگی میں وفات پا گئے تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب جو دعائیں اور قربانی کی نیت ملتی ہیں، ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:
“اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ”. [صحیح مسلم: 1967]
’’اے اللہ ! اسے محمد ﷺ ، آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما!‘‘۔
سنن أبی داؤد کی روایت میں امت کیساتھ درج ذیل الفاظ ہیں:
“وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي”. [سنن أبی داؤد: 2810]
ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں امت سے مراد امت کے وہ زندہ لوگ ہیں جواس سال قربانی نہیں کرسکے تھے نہ کہ فوت شدہ لوگ۔ اور اسی طرح اس میں واضح طور پر نیت میں شمولیت کا پہلو ہے نہ کہ فوت شدگان کی طرف سے مستقل قربانی کا کوئی ثبوت۔
اور جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول بعض آثار کا تعلق ہے، کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے، حضرت علی کی نسبت سے یہ آثار ضعیف اور غیر ثابت ہیں۔ اس لیے ان کو دلیل بنانا درست نہیں ہے۔
لہٰذا میت کی طرف سے مستقل قربانی شرعاً ثابت نہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص جانور خرید کر کسی مستحق کو دے دے اور وہ قربانی کر لے، تو یہ جائز ہے، اس صورت میں بھی میت کی طرف سے قربانی نہیں بلکہ صدقہ ہوگا۔ میت کو اس کا اجر بطور صدقہ ملے گا۔
میت کی طرف سے صرف صدقہ کیا جاسکتا ہے۔ اب وہ صدقہ چاہے نقد رقم ہو، یا جانور ہو جو کسی مستحق کو دے دیا جائے یا ذبح کر کے صدقہ کر دیا جائے، بہرحال یہ قربانی نہیں کہلائے گی۔ کیونکہ قربانی صرف زندہ افراد کے لیے مشروع ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ