سوال (2320)
کیا میت کی طرف سے حج اور عمرہ کیا جا سکتا ہے؟ اس حال میں کہ میت اپنا فرضی حج ادا کر چکی ہو اور اس نے کوئی وصیت بھی نہ کی ہو؟
جواب
کسی بھی زندہ یا فوت شدہ کی طرف سے نفلی عمرہ ، حج کرنا ، ناجائز ہے۔
حَدَّثَنَا العَلاءُ، ثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: “لَا يَصُمْ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ، وَلَا يَحُجَّ أَحَدٌ عَنْ أَحَد” [جزء أبي الجهم: 24 وسندہ صحیح]
«کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہ رکھے نہ کوئی کسی کی طرف سے حج کرے»
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ العالم احمد بن احتشام حفظہ اللہ
عبادات کو اہل علم نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، بعض وہ عبادات ہیں جن میں کسی کی طرف سے نیابت جائز نہیں، جیسا کہ نماز جیسی بدنی عبادات۔ اور بعض عبادات ایسی ہیں جن میں نیابت جائز ہے جیسا کہ صدقہ وغیرہ جیسی مالی عبادات۔
حج میں دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں اس کا بدن کے ساتھ بھی تعلق ہے اور مال کے ساتھ بھی، لیکن واضح نصوص ہیں کہ اس میں بھی نیابت جائز ہے، جیسا کہ شبرمہ والی روایت ہے، اسی طرح ’شیخ کبیر’ والی روایت ہے۔ البتہ بعض اہل علم نے اس کو صرف فرض کے ساتھ خاص کیا ہے کہ حج اگر فرضی ہو تو پھر نیابت جائز ہے، جیسا کہ ان روایات میں فرضی حج کی بات ہو رہی ہے، جبکہ نفلی میں نیابت جائز نہیں۔ راجح موقف یہی محسوس ہوتا ہے کہ نفلی میں بھی نیابت جائز ہے، کیونکہ اہل علم یہ اصول بیان کرتے ہیں:
«كل عبادة جازت النيابة في فرضها جازت النيابة في نفلها كالصدقة». [المهذب للشيرازي 1/ 365]
امام ابن رسلان نے ’شيخ كبير’ والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے اسی موقف کو راجح قرار دیا ہے، فرماتے ہیں:
«فيه دليل على جواز النيابة عن المعضوب الحي في حج الفرض، وكذا التطوع على الصحيح وهو مذهب الشافعي ومالك وأبي حنيفة وأحمد؛ لأن كل عبادة جازت النيابة في فرضها جازت في نفلها كالصدقة . وأما قول بعضهم: إنما جازت الاستنابة في الفرض إلا للضرورة فلا يجوز في النفل. وينكر هذا بالتيمم؛ فإنه جوز في الفرض للحاجة ويجوز أيضًا في النفل (واعتمر) فيه دليل على جواز النيابة في العمرة عن الحي المعضوب كما يجوز عن الحج.». [شرح سنن أبي داود له 8/ 381]
خلاصہ یہ ہے کہ نفلی حج یا عمرے میں بھی نیابت جائز ہے کیونکہ جس عبادت کے فرض میں نیابت جائز ہو، اس کے نفل میں بھی نیابت جائز ہوتی ہے جیسا کہ صدقہ وغیرہ۔ واللہ اعلم.
اس مسئلے میں تفصیلی اقوال، دلائل کا مناقشہ راجح موقف اور وجہ ترجیح کے لیے ملاحظہ فرمائیں: [أخذ المال على أعمال القرب 1/ 363-381]
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
فور شدگان کی طرف سے عمرہ یا حج کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ جو ان کی طرف سے عمرہ یا حج کر رہا ہے، اس نے اپنا عمرہ یا حج کیا ہو، تو پھر کیا جا سکتا ہے، طریقہ کار وہی ہوگا، صرف نیت کا فرق ہوگا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
حج و عمرہ میت کی طرف سے کرنے کی دوسری شرط یہ ہے کہ ان پر حج یا عمرہ فرض ہو۔ لیکن اس شرط پر بھی ہمیں تھوڑا سا توجہ کرنی چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
سائل: ایک ہی سفر میں وہ اپنا عمرہ پہلے کرے اور بعد میں میت کی طرف سے کر لے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے یا اسے پہلے اپنا کرنا پڑے گا اور پھر بعد میں الگ سفر کے ساتھ میت کی طرف سے کرنا پڑے گا؟
جواب: ایک ھی سفر میں ھو جائے گا بس میقات ونیت کا خیال رکھے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ