سوال (3409)
کیا میت کی طرف سے رمضان کے روزوں کی قضا کا صرف فدیہ دیا جائے گا یا روزے رکھے جا سکتے ہیں؟ اور اگر قضا روزوں کی یقینی تعداد معلوم نہ ہو تو کیا حکم ہے؟
جواب
امام ابن قدامہ اپنی کتاب “المغنی” میں لکھتے ہیں:
“فإن كان على الميت صيام، ولم يعلم قدره، صام وليه ما يتيقن براءة ذمته، وإن شاء أطعم عن كل يوم مسكينًا.”
اگر میت پر روزے باقی ہوں اور ان کی مقدار معلوم نہ ہو، تو ولی (قریبی رشتہ دار) اتنے روزے رکھے جتنے سے یقین ہو کہ میت کی ذمہ داری ختم ہو گئی۔ اگر چاہے تو ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔
[المغني، ابن قدامة، ج 3، ص 135]
کتاب “الشرح الممتع علی زاد المستقنع” میں امام ابن عثیمین لکھتے ہیں:
“فإن لم يعلم عدد الأيام التي أفطرها، فإنه يعمل بالتحري؛ لأن الظاهر أن الله عز وجل لا يكلف نفسًا إلا وسعها، فيجتهد ويعمل بغالب الظن.”
اگر روزوں کی تعداد معلوم نہ ہو، تو گمان پر عمل کیا جائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔ اجتہاد کیا جائے اور غالب گمان کے مطابق عمل کیا جائے۔
[الشرح الممتع، ابن عثيمين، ج 6، ص 452]
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
شیخ عبدالستار حماد حفظہ اللہ کا موقف ہے کہ صرف فدیہ دیا جا سکتا ہے، اس کی طرف سے قضا نہیں ہو سکتے، بخاری کی جس حدیث میں میت کی طرف سے اس کے ولی کے روزے رکھنے کا ذکر ہے، ان سے مراد نذر کے روزے ہیں۔اس سے متعلق علماء کی آراء درکار ہیں۔
فضیلۃ الباحث عمران صارم حفظہ اللہ
اگرچہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے، لیکن کچھ آثار صحابہ کی وجہ سے یہ بات راجح قرار پاتی ہے کہ میت کے حوالے سے جو روزے رکھنے کی بات ہے، اس کا تعلق نذر کے روزوں کے ساتھ ہے، یہ بات مفتی اعظم صاحب کی صحیح ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ