سوال (2486)

اکثر علماء کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ زکوۃ کے مال سے مسجد کی تعمیر نہیں کی جاسکتی ہےان میں ائمہ اربعہ بھی شامل ہیں مگر نفلی صدقات(زکوۃ کے علاوہ ) کا پیسہ مسجد کی تعمیر یا اس کے دوسرے مصارف میں لگا سکتے ہیں۔ چونکہ زکوۃ کے آٹھ مصارف متعین ہیں، مال زکوۃ ان کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں نہیں لگایا جاسکتا ہے جبکہ صدقہ کا مصرف خاص نہیں ہے اس لئے یہ مال فقراء ومساکین سے لیکر اللہ کے تمام راستے میں خرچ کرسکتے ہیں۔ جب آدمی اللہ کے راستے میں مال خرچ کرتا ہے تو یہ صدقہ کے ہی زمرے میں آتا ہے بلکہ ہر قسم کی بھلائی کو صدقہ کہا گیا ہے۔متفق علیہ روایت میں نبی ﷺ کا فرمان ہے:

كلُّ مَعروفٍ صَدَقةٌ.

[صحيح البخاري:6021,صحيح مسلم:1005]
ہر بھلائی کا کام صدقہ ہے۔
کچھ صدقات کا ثواب صدقہ کرتے وقت ہی مل جاتا ہے اور کچھ صدقات کا ثواب مرنےکے بعد بھی ملتا رہتا ہے جیساکہ مسلم شریف میں نبی ﷺ کا فرمان ہے :

إذا مات الإنسانُ انقطع عنه عملُه إلا من ثلاثةٍ : إلا من صدقةٍ جاريةٍ . أو علمٍ ينتفعُ به . أو ولدٍ صالحٍ يدعو له [صحيح مسلم:1631]

ترجمہ:جب انسان مرجاتا ہے تو اس سے اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے :صدقہ جاریہ یا وہ علم جس کے ذریعے فائدہ حاصل ہو یا اس کے لئے دعا کر نے والا نیک لڑکا۔
اس حدیث کی رو سے مسجد میں نفلی صدعات لگانا صدقہ جاریہ ہوگا یعنی ایسا صدقہ جس کا ثواب مرنے کے بعد تک ملتا رہے گا۔ جس طرح ایک زندہ آدمی اپنی طرف سے صدقات کر سکتا ہے اسی طرح میت کی طرف سے بھی مالی صدقہ کرسکتا ہے خواہ تعمیر مساجد و مدارس ہو یا فقراء ومساکین پر صرف کرنا ہو۔ اس کا ثواب میت کو پہنچے گا۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمدسلفی
کیا یہ مؤقف درست ہے اور اس میں جن احادیث سے استدلال کیا گیا ہے یہ استدلال درست ہے؟

جواب

میت کی طرف سے عموماَ صدقہ جاریہ پر اہل علم فتویٰ دیتے آئے ہیں، لیکن بہرحال یہ بات غور و فکر کی متقاضی ہے، عموماً کوئی بھی شخص کسی کے لیے بھی صدقہ کردے، وہ ثواب اس کو پہنچ جائے، یہ بات غور و فکر کی متقاضی ہے، باقی جو ادلہ پیش کیے جاتے ہیں وہ ان خونی رشتوں کے بارے میں ہوتے ہیں، جو معروف ہیں، باقی جن سے بالکل ہی تعلق نہ ہو، ان کی طرف سے بھی لوگ بہت صدقات و خیرات کرتے ہیں، جیسے شیخ جیانی رحمہ ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل:
کیا صدقہ مسجد میں بھی دے سکتے ہیں؟
جواب :
جو بھی کچھ فی سبیل الله دیا جاتا ہے، وہ صدقہ ہی شمار ہوگا ، بشرطیکہ وہ زکاۃ نہ ہو، اس کو نفلی صدقہ بھی کہتے ہیں، ان شاءاللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ