سوال (1417)

میت کو قبر میں لٹاتے ہوئے قبلہ رخ کرنے کی کوئی دلیل ہے؟

جواب

اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت نہیں، جیسا کہ شیخ البانی نے “احکام الجنائز ” وغیرہ میں لکھا ہے، تاہم بعض صحابہ کرام اور تابعین کرام سے آثار منقول ہیں کہ میت کو قبلہ رخ لٹانا چاہیے۔
جیسا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ میری وفات کے وقت مجھے قبلہ رخ کر دینا۔
اسی طرح ابراہیم نخعی بیان کرتے ہیں:

كانوا يستحبون أن يوجه الميت القبلة إذا حضر [المصنف لابن ابي شيبة:11183 ط الشثري]

صحابہ کرام اور سلف صالحین مرنے والے کو قبلہ رخ رکھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہيں:

“وتوجيه الميت إلى القبلة حسن فإن لم يوجّه فلا حرج ولم يأت نص بتوجيهه إلى القبلة”. [المحلى: 5/174]

’قبر ميں ميت كو قبلہ رخ كرنا بہتر ہے، اور اگر نہ بھى كيا جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں کیونکہ اس حوالے سے شریعت میں کوئی خاص دلیل ثابت نہیں’۔
لہذا اگر قبلہ رخ کر دیا جائے، تو بہتر ہے، نہ کیا جائے، تو ضروری نہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ