سوال (323)

ایک لڑکا تہجد کے وقت اپنی شادی کی دعا مانگنے لگا تو شرما گیا ، بولا یااللّٰه میں اپنے لیے نہیں اپنی ماں کے لیے خوبصورت بہو مانگتا ہوں ، دعا قبول ہو گئی اور اس کے چھوٹے بھائی کی شادی ہو گئی۔
دوسری شادی کا خواہشمند ایک شخص ہر نماز کے بعد دعا مانگتا یااللّٰه مجھے نئی ساس عطا فرما ! اس کی دعا بھی قبول ہو گئی اور اس کے سسر نے دوسری شادی کر لی.
سوال یہ ہے کہ کیا اس میں دعا کا استھزا و مذاق ہے ، اس طرح مزاحا کہنا کیسا ہے ؟

جواب:

اس بے علمی اور پرفتن دور میں دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعتاً ان سے سہو ہوا ہے ۔ اگر وہ واقعتاً مذاق اڑانا چاہتے ہیں تو بڑی سخت تنبیہ ہونی چاہیے ، کیونکہ استہزاء کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔

“وَلَئِنۡ سَاَلۡتَهُمۡ لَيَـقُوۡلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلۡعَبُ‌ؕ قُلۡ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوۡلِهٖ كُنۡتُمۡ تَسۡتَهۡزِءُونَ لَا تَعۡتَذِرُوۡا قَدۡ كَفَرۡتُمۡ بَعۡدَ اِيۡمَانِكُمۡ‌” [سورة التوبة: 65,66]

’’اور بلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے تو ضرور ہی کہیں گے ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہہ دے کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ مذاق کر رہے تھے؟ بہانے مت بنائو، بے شک تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا ہے‘‘۔
تو اس معاملے کی تفتیش کی جائے ، باقی اگر فرضی سوال ہے تو ایسا سوال کرنا ہی نہیں چاہیے ، اس کی بھی ممانعت وارد ہوئی ہے ۔ بس ان کے وضاحت کے بعد فیصلہ ہوگا کہ ان پر کیا حکم لگایا جائے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ