“مزارات اور فوت شدگان کو مدد کے لیے پکارنا”
فوت شدگان کو مدد کے لیے پکارنا شرک اکبر ہے، کسی بھی شخص کا دنیا سے جاتے ہی اس کا تعلق دنیا سے کٹ جاتا ہے، وہ دنیاوی امور سے لا تعلق ہے، لوگوں کا ان فوت شدگان کو مختلف القابات دے کر مدد کے لیے پکارنا شرک اکبر ہے، یاد رہے کہ شرک ایک ناقابل معافی جرم ہے، مشرک ابدی جہنمی ہے، ہمارے ہاں فوت شدگان بزرگوں کے اوپر مزارات تعمیر کی جاتی ہیں، ان مزارات پر طواف کیے جاتے ہیں، لوگ وہاں نذر و نیاز کرتے ہیں، اپنی حاجتیں اور ضرورتیں پوری کرنے کے لیے دور دراز سے مزارات پر آ کر دستک دیتے ہیں، وہیں سجدے کرتے ہیں اور ماتھے ٹیکتے ہیں، وہیں جانور لا کر ذبح کرتے ہیں، ان فوت شدگان مدفون بزرگوں کی وجہ سے وہاں کے در و دیواروں کو بابرکت سمجھا جاتا ہے، در و دیواروں کو لوگ چومتے ہیں، وہاں کی مٹی کو بابرکت سمجھتے ہیں، دور دراز تک اس مٹی کو لے کر جاتے ہیں، بیماری سے شفاء کے لیے مزار کی مٹی کو چاٹتے ہیں، ان بزرگوں کی وجہ سے وہاں کے درختوں کو بڑا مبارک سمجھا جاتا ہے، وہاں کے درختوں کا بڑا لحاظ رکھا جاتا ہے، نذر و نیاز کے دھاگے ان درختوں پر باندھے جاتے ہیں۔ الغرض وہاں ان فوت شدگان بزرگوں اور قبروں کی وجہ سے کئی خرافات ہوتے ہیں، کئی شرکیہ رسوم سر انجام دیے جاتے ہیں۔
دراصل یہ مزارات کمائی کا ذریعہ ہیں، کئی لوگ کماتے ہیں، یہ مزارات عام لوگوں سے لے کر حکومت کی کمائی کا ذریعہ ہیں، ان شرکیہ اڈوں کو حکومت کی طرف سے بھی بڑا تحفظ حاصل ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان مزارات پر شرکیہ رسوم دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، ان شرکیہ کام کو بڑے پروٹوکول سے سر انجام دیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ قبروں سے روحانی فیض و برکات حاصل ہوتی تو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور سے بڑھ کر کون سی قبر ہے، جس سے بندہ روحانی فیض و برکات حاصل کرے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کوئی بھی صحابی کسی بھی حاجت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر تشریف نہیں لایا، خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نماز استسقاء کی دعا کے لیے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا تھا، نہ اللہ کے رسول کو پکارا اور نہ ہی اللہ کے رسول کی قبر پر تشریف لائے تھے۔ فوت شدگان نہ سنتے ہیں اور نہ ہی حاجت روائی کر سکتے ہیں، چند دلائل قرآن سے ذکر کرتے ہیں۔
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اِنَّكَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰى”
«بے شک آپ مُردوں کو نہیں سناتے ہیں »
(2) ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“وَمَا يَسۡتَوِى الۡاَحۡيَآءُ وَلَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُسۡمِعُ مَنۡ يَّشَآءُ ۚ وَمَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِى الۡقُبُوۡرِ” [فاطر: 22]
«اور نہ زندے برابر ہیں اور نہ مردے۔ بے شک اللہ سنا دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تو ہرگز اسے سنانے والا نہیں جو قبروں میں ہے»
(3) ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَالَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَخۡلُقُوۡنَ شَيۡـئًا وَّهُمۡ يُخۡلَقُوۡنَؕ ۞ اَمۡوَاتٌ غَيۡرُ اَحۡيَآءٍ ۚ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَ اَيَّانَ يُبۡعَثُوۡنَ [النحل: 20، 21]
«اور وہ لوگ جنھیں وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ مردے ہیں، زندہ نہیں ہیں اور وہ نہیں جانتے کب اٹھائے جائیں گے»
اسلام اور قبر پرستی:
(1) سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ” [صحيح البخاري: 436]
«یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا ہے»
(2) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا، قَالَتْ: وَلَوْلَا ذَلِكَ لَأَبْرَزُوا قَبْرَهُ غَيْرَ أَنِّي أَخْشَى أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا” [صحيح البخاري: 1330]
«یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ اگر ایسا ڈر نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی رہتی “اور حجرہ میں نہ ہوتی” کیونکہ مجھے ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی مسجد نہ بنا لی جائے»
(3) سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
“نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَقْصِيصِ الْقُبُورِ، أَوْ يُبْنَى عَلَيْهَا، أَوْ يَجْلِسَ عَلَيْهَا أَحَدٌ” [سنن النسائی: 2030]
«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے یا اس پر عمارت بنانے یا اس پر کسی کے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے»
(4) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، فَأُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ” [صحيح البخاري: 427]
«ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار (نیک) شخص مرجاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی مورتیں (تصویریں) بنا دیتے پس یہ لوگ اللہ کی درگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے»
اسلاف سے کوئی مثال قبر پرستی پر نہیں ملتی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے صحابہ کرام کثیر تعداد میں 90 سال تک موجود رہے ہیں، ان کے حالات زندگی پر دوسری صدی ہجری ہی میں طبقات ابن سعد جیسی کتاب لکھی گئی ہے، جس میں ہزاروں صحابہ کے حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں، اس کتاب کی گیارہ جلدیں ہیں جن میں ہر جلد 600 صفحات کے قریب ہیں، اس کے علاوہ تیسری صدی میں امام بخاری کے استاذ کے استاذ ابن ابی شیبہ نے صحابہ کرام کے اقوال و اعمال کو اپنی مشہور کتاب “المصنف” میں جمع کیا ہے، اس کتاب کی 26 جلدیں ہیں، جن میں سے ہر جلد 700 صفحات کے آس پاس ہے، ان تمام کتب میں کوئی ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی ہے کہ کسی صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر آ کر چلے اور مراقبے کیے ہوں اور اس طریقے سے روحانی سفر طے کیے ہوں۔
مزارات و مقبرے صوفیاء کی مرہون منت ہیں:
صوفیاء چوتھی صدی ہجری میں عراق، مصر اور مغرب میں پھیل گئے تھے۔ چھٹی، ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں صوفی ازم کا یہ فتنہ اپنے انتہا کو پہنچ چکا تھا، بعد میں صوفیوں کے ایک نئے فرقے نے جنم لیا تھا جو “درویشوں” کے ساتھ مخصوص تھا۔ اسی سلسلے کی کڑی میں مجذوب ظاہر ہوئے تھے، ہر طرف قبروں پر قبے نظر آنے لگے ہیں۔ مصر میں یہ سب کچھ سلطنت فاطمیہ کی مرہون منت ہے، جس نے عالم اسلام کے ایک وسیع خطے پر قبضہ جما کے رکھا تھا، مزارات کی تعمیر اور خود ساختہ قبریں سب انہی کے کارنامے ہیں۔ انہی خود ساختہ قبروں میں سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ زینب کی قبریں بھی شامل ہیں۔ آگے جا کر میلاد اور دیگر خرافات بھی ان صوفیوں کی ایجاد ہے۔ بعد میں نویں، دسویں اور گیارہویں صدی ہجری میں یہ امت مسلمہ میں سرایت کر گئے تھے۔
مزارات پر خرافات:
(1) شرک:
مزارات و مقبروں پر آج کل عام شرک ہو رہا ہے، کوئی وہاں کی دیواریں چوم رہا ہے، کوئی وہاں کی مٹی لا کر تبرک سمجھ کر کھا رہا ہے، کوئی وہاں قبروں کو سجدے کر رہا ہے، کوئی وہاں طواف کر رہا ہے۔ الغرض اس کے علاؤہ کئی اور کام جو شرکیہ ہیں، ان کو وہ لوگ سر انجام دیتے ہیں۔
(2) بے پردگی:
آج کل مزارات پر مرد و زن اختلاط عام ہے، وہاں کثرت کے ساتھ عورتیں حاضر ہوتی ہیں، جن کو اسلامی لباس اور پردے کا خیال تک نہیں ہے۔
کہاں اور کس آیت یا حدیث میں لکھا ہے کہ بے پردہ و نیم پردہ عورتیں ہجوم میں پیر کے دربار پر حاضر ہوں اور اجنبی مردوں کے ساتھ گھل مل کر دربار کی زینت بنیں؟ اللہ کریم تو قرآن میں حکم دے رہا ہے کہ:
“وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرَّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ”[الاحزاب: 33]
«اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔»
(3) موسیقی:
وہاں مزارات میں عجیب قسم کے لباس پہن کر کئی فقیر آلات موسیقی کے ذریعے راگ کر رہے ہوتے ہیں، جن کے ارد گرد کئی لوگ جم غفیر لگا کر ان کو سنتے ہیں، اور وہاں بیٹھ کر ان کے مخلتف راگ اور شرکیہ اشعار میں لوگ مگن رہتے ہیں۔
(4) مزارات بدعات کی آمجگاہ:
آج کل پڑھا لکھا طبقہ بھی عقیدت میں غرق ان بدعات میں مبتلا ہے، باشعور اور حقیقت سے آشنا افراد کی اس عدم دلچسپی اور خاموشی کی وجہ سے صوفیا کے مزارات بدعات کی آماجگاہ بن گئے ہیں۔ جس کے من میں جو آتا ہے، وہ کرتا ہے، کوئی ان مریدین، عقیدت مندوں اور متاثرین کے غیر شرعی افعال اور حرکات و سکنات کو روکنے والا نہیں ہے، مولا علی! کرے گا بھلی، نعرہ حیدری، حق حق چار یار، سب مل کر بولو، شیر، شیر حیدر، حیدر، دم میراں، پاک قلندر، یا عباس! پُتر مانگا واں، لے جاناں اے، بھر دو جھولی میری اجمیر والے، داتا! تو ہی دے گا۔ اس طرح کے ہزاروں غیر شرعی، کفرانہ اور جاہلانہ جملے مزارات اور درگاہوں میں بولے جاتے ہیں اور انھیں دُہرانے والے ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔
مزار کے اندر کا ماحول اور باہر کی فضا میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے، ہر قماش اور رنگ کا بندہ ان مزارات پر موجود ہوتا ہے، امیر، غریب، ادنیٰ، اعلیٰ، جاہل، پڑھا لکھا، بے شعور اور شعور یافتہ سبھی کی عقیدت کا رنگ معمولی اختلاف کے سِوا ایک جیسا دکھائی دیتا ہے۔ گدی کی سیاست پر مجاوروں کی باہمی چپلقشیں بھی عروج پر ہوتی ہیں۔ عُرس گویا ان کا سالانہ مال اکھٹا کرنے کا موسم ہوتا ہے، جسے کسی صورت یہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ زندگی میں صاحبِ مزار کے کسی عزیز نے اِسے پوچھا ہوتا ہے نہ اس کے بتلائے ہوئے طریقہ اور واعظ پر عمل کیا ہوتا ہے۔ وفات کے یہی عزیزان مجاور اور گدی نشین بن کر پیر بن جاتے ہیں اور اپنے اپنے دھڑے اور گروپ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
مزارات درحقیقت ذریعہ آمدن:
محکمہ اوقاف کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں مزارات کی آمدن شائع کی گئی، محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام پانچ ہزار کے قریب چھوٹے بڑے مزارات ہیں، بارہ کے قریب بڑے بڑے مزارات ہیں، جن کی آمدن بلا مبالغہ اربوں روپے ہے، مثلا سید علی ہجویری (المعروف داتا گنج بخش) کے مزار کی سالانہ آمدنی تیس کروڑ بیاسی لاکھ بیس ہزار روپے ہے۔ حضرت مادھو لال حسین مزار کی آمدن بیالیس لاکھ روپے، دربار حضرت شاہ جمال کی چوالیس لاکھ، حضرت سید میاں میر کی آمدن چوالیس لاکھ، سید فرید الدین گنج شکر کی سات کروڑ، امام علی الحق کی پانچ کروڑ، دربار شاہ دولہ کی آمدن ساڑھے چھ کروڑ روپے کے قریب ہے، یہ تو چندے کی کمائی ہے، ذاتی جاگیروں کی کمائی اس کے علاوہ ہے۔ مثلا دکانیں، زمینیں، پلاٹ اور پراپرٹی وغیرہ۔
تحریر: افضل ظہیر جمالی