حالیہ دنوں ایک ایسا واقعہ ہماری نظروں اور سماعتوں سے گزرا جس نے سینے میں دل رکھنے والے شخص کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ سانحہ یہ تھا کہ سندھ کے ضلع خیر پور کے علاقے رانی پور میں پیر اسد شاہ کے محل میں ایک 10 سالہ ننھی سی لڑکی جو کہ نیم برہنہ نظر آتی ہے۔ بے ہوشی کے عالم میں تڑپ رہی ہے۔ تڑپتے تڑپتے اس کا جسم حرکت کرنا بند کر دیتا ہے۔اسی دوران ایک خاتون آتی ہے جو پیر اسد شاہ کو آواز دیتی ہے۔ پیر اسد شاہ اپنے بیڈ سے برہنہ حالت میں جلدی سے اٹھتا ہے، ننھی فاطمہ کا ہاٹھ اوپر کرتا ہے۔ اس کو چھوڑتا ہے جو کہ زمین پر گر جاتا ہے جس کا مطلب تھا کہ اس کے جسم اور روح کا بندھن ٹوٹ چکا ہے۔
یہ فوٹیج اور ویژول سی سی ٹی وی کیمرے کے ہیں، جب یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو سوشل میڈیا پر ایک شدید احتجاج کی تحریک اٹھی جس میں کہا گیا کہ اس ننھی فاطمہ کے ساتھ پیر اسد نے ریپ کیا ہے جس وجہ سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ گئی ہےلہذا اس درندے کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔اس سوشل میڈیا تحریک نے جب مزید زور پکڑا تو ملزم اسد شاہ کو گرفتار کرنے کا پریشر اتنا زیادہ ہوگیا کہ ریاست اور حکومت کو اس پریشر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ملزم اسد شاہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ فاطمہ جو کہ اس دنیا سے جا چکی تھی۔ اس کی قبر کشائی کی گئی اور اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کی گئی۔رپورٹ کے انکشافات سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق چہرے کے دائیں جانب کے حصے پر نیل کے نشانات تھے، جب کہ ناک اور کانوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ فاطمہ کی دونوں آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، بچی کی زبان اس کے دانتوں میں دبی ہوئی تھی، اس کی پیشانی کی دائیں جانب چوٹ کے نشانات تھے، سینے کے دائیں جانب اوپر کی طرف بھی زخموں کے نشان تھے، اور ٹیشوز کے نیچے خون بھی جمع تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے بچی کمر کے درمیان 5 سے 2 سینٹی میٹر زخم کے نشان تھے، کمر کے نچلی جانب بھی 6 سینٹی میٹر زخم کا نشان تھا، کمر کے بائیں جانب 2 سینٹی میٹر، ہاتھ سے لیکر بازو تک 10سینٹی میٹر اور دائیں ہاتھ پر بھی 6 سینٹی میٹر کے زخم کا نشان تھا۔رپورٹ کے مطابق فاطمہ کے بائیں ہاتھ میں سوراخ کرنے کے نشان بھی تھے، اور تمام زخم موت سے پہلے کےتھے، بچی کے سر پر بھی چوٹیں تھیں، جب کہ رپورٹ کے مطابق بچی سے زیادتی کی گئی جس میں اینل اور وجائنل پینیٹریشن کی علامات ظاہر ہوئیں۔
ایسی ایک نہیں سینکڑوں فاطمائیں ہیں جو اس معاشرے کے درندوں کے ہاتھوں آئے روز نوچی جاتی ہیں، رپورٹ درج ہونے والے واقعات ہزاروں میں ہیں۔ جن کیسز کا تذکرہ نہیں ہوتا یا وہ کسی وجہ یا ڈر سے رپورٹ نہیں ہوتے ان کی تعداد نہ جانے کتنی ہے۔ اس قدر اندھیر نگری اور درندگی کے واقعات ہم کس سمت چل رہے ہیں کیا ہم انسانوں کی بستی میں رہتے ہیں؟

بچوں سے زیادتی تو جانور بھی نہیں کرتے یہ کیسے انسان ہیں جو اس قدر ذلت کے گہر ے کنویں میں گر چکے ہیں، ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ان واقعات کے تدارک اور روک تھام کے لیے بحیثیت قوم ہم کو متحرک ہونا پڑے گا اور ان وجوہات اور محرکات کو ختم کرنا ہوگا جو اس کا باعث بن رہے ہیں۔
بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور زیادتی کے واقعات کے پیچھے محرکات کا جائزہ لیں تو کافی زیادہ ہیں، جس میں اخلاق اور تربیت سے دوری، جہالت، میڈیا میں اس عمل پر ابھارنے اور ترغیب دینے والا مواد، پورنو گرافی کا آسانی سے دستیاب ہونا، انصاف اور قانون کی عملداری کا نہ ہونا، طاقت و اختیار کا نشہ اور اس کا بے دریغ استعمال، قانون کی عملداری نہ ہونے کے باعث مجرم کو اپنے کیے کی پرواہ نہ ہونا اور اس طرح کے دیگر گھناؤنے عوامل کارفرما ہیں۔
ان واقعات کی بنیادی وجہ اور سبب میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہیجان انگیز جنسی مناظر اور فحش مواد کا آسانی سے دستیاب ہونا ہے۔ جب سے ہمارے معاشروں میں فحش مواد یا پورنو گرافی عام ہوئی ہے یا اس تک رسائی آسان ہوئی ہے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے آج ہمارے مین سٹریم میڈیا پر کلچر اور فیشن کے نام پر بھی جو مواد دیکھایا جارہا ہے، اس کے اندر بھی اس قدر ہیجان انگیزی ،اٹریکشن اور جازبیت ہے کہ جذبات لا محالہ طور پر جنسی بے راہ کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں۔
جب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اڈوانس ہونے کے بعد پورنو گرافی یا فحش ویڈیوز اور مواد عام اور اس کی دستیابی آسان ہوئی ہے، تب سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
اس لت میں پڑے افراد کو جب اپنی خواہش اور فرسٹریشن پوری کرنےکا جائز ذریعہ میسر نہیں ہوتا تواس وقت معاشرے میں بچے ان کا آسان نشانہ ہوتے ہیں۔ اکثر کیسز میں ایکسپوز ہونے کے ڈر سے ثبوت مٹانے کے لیے کمسن بچوں کی جنسی زیادتی کے بعد جان تک لے لی جاتی ہے۔ایسے کیسز میں بچوں کی اموات کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے۔
کس قدر افسوس ناک امر ہے ان انسانیت سوز واقعات کی بنیادی وجہ میڈیا پر غیر اخلاقی مواد اور پورنو گرافی ہے لیکن ریسرچ اور سٹڈی رپورٹس کو دیکھا جائے کہیں بھی ایسا کچھ نہیں ملتا۔ بسیار کوشش اور تلاش کے باوجود بھی آپ کو کوئی ڈیٹا اور فگر کہیں نہیں ملے گا کہ یہ پورنوگرافی جنسی زیادتی کے واقعات کو فروغ دے رہی ہے اور معاشرے کے پھول اس وجہ سے مسلے جا رہے ہیں۔
دنیا کے اندر ہر جرم اور مرض کی ریسرچ کرنے والی تنظیمیں اور بڑے بڑے ادارے موجود ہیں جو ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔ مگر اس بہت بڑے معاشرتی ناسور پر کسی قسم کی کوئی جامع اور مستند ریسرچ کنڈکٹ نہیں کی گئی یا میڈیا پر اس کی رسائی نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بے راہ روی اور اخلاقیات کو تباہ کرنے والے پورنو گرافی کو عام کرنے والے کتنے طاقتور ہیں اور ان کا کتنا اثرو رسوخ ہے کہ ہر معاشرے میں ایک خطرناک جرم کا باعث بننے والے سبب کو دبا دیا جاتا ہے اور اس پر کسی کو کوئی اعداد و شمار اور ڈیٹا فگر پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اس حساس اور سنگین مسئلے پر اگر کوئی میڈیا آؤٹ لیٹ بات کرتا بھی ہے تو دبے لفظوں میں اور پونوگرافی کی وکالت کرتے ہوئے کہ “دراصل اس میں دیکھنے والے کی ذہنی اور نفسیاتی کمزوری اور عدم برداشت کار فرما ہے کہ ایسا مواد دیکھنے کے بعد اگر کوئی ریپ یا جنسی حملہ اور ہراسمنٹ کا عمل کرتا ہے”
سماجی سائنس دانوں ، طبی ماہرین نفسیات اور ماہرین حیاتیات نے فحش نگاری کے کچھ سماجی اور نفسیاتی اثرات کو واضح کرنا شروع کر دیا ہے مگر یہ جرات بہت قلیل پیمانے پر ہے۔ oladoc.com کے مطابق فحش نگاری سے جنسی تشدد ، دماغی امراض جیسے غیر سنجیدگی ، غضب اور حقیقت کے مسخ شدہ خیالات کا بڑھ جانا، جنسی جارحیت ، اطمینان میں کمی ، دل کے مسائل، جسمانی عوارض وغیرہ بڑھ جاتے ہیں۔
جن اداروں نے اس سنگین مسئلے پر اگر تھوڑی بہت ہمت کی ہے تو وہ بھی دبے الفاظ بات کرتے ہیں پورنو گرافی کو کھل کر اس کی وجہ قرار نہیں دیتے جیسے دی گارڈین نے ایک سوال

?Is pornography to blame for rise in ‘rape culture

کے جواب میں تسلیم کیا کہ پورنو گرافی ان واقعات کی وجہ ہے یہ بات تشویشناک ہے لیکن اس وجہ کو کلیئر کٹ جزم کے ساتھ کہنا مشکل ہے کہ معاشرے میں آسانی سے فحش مواد کی دستیابی ریپ کسیز کی وجہ ہے، ہاں البتہ اس نے رضا مندی کے رجحان کو کمزور کیا ہے، اس تجزیے میں ایک طرف تسلیم کیا جارہا ہے کہ رپورٹس کافی تشویشناک ہیں کہ پورنو گرافی جنسی زیادتی کی وجہ ہے مگر ایسا بیانیہ تیار کرنے سے ماہرین کنی کترا رہے ہیں اور بس اتنا تسلیم کیا جا رہا ہے،اس سے رضامندی والا رجحان کمزور ہوتا ہے۔  فحش نگاری کی وجہ سے رضا مندی سے جنسی تعلقات قائم کرنے کی بجائے رجحان زیادتی اورریپ کی طرف جاتا ہے۔ یہاں یہ بات مضحکہ خیز ہے جب پورنو گرافی رضامندی کے رجحان کو ختم کرنے کا باعث بن ہی ہے تو ریپ اورزیادتی کی وجہ ہی تو ہے؟ مگر اہل مغرب اس کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔

بچوں کے ریپ کرنے والوں کی نفسیات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر کھل کر پورنو گرافی کو اس کا سبب بیان کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ امریکا کی دی نیویارک سوسائٹی فارچائلڈ ابیوز کی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر ہیلتھ اینڈ مینٹل ہائی جین ڈاکٹر میری ایل کہتی ہیں کہ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کی نفسیات کو حتمی طور پر بیان کرنا مشکل ہے۔ ایک جنسی حملہ آور کسی بھی وجہ سے متحرک ہو سکتا ہے، اس کی بائیولوجکل وجوہات بھی ہوتی ہے، حملہ آور کی نفسیات منتشر ہوتی ہیں۔

Psychiatrist.com کی رپورٹ میں جزوی طور پر کہا گیا کہ: “ریسرچ ظاہر کرتی ہے پورنوگرافی اور بچوں کی جنسی زیادتی کے درمیان تعلق ہے۔”
امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن میں کہا گیا: ” کہ پورنوگرافی اور بچوں سے زیادتی کے درمیان تعلق ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہے”

الیاس حامد