سوال (5613)
دو سوالات ہیں۔
(1): ایک بریلوی کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد منانے کی سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نہ مانو۔ کیا یہ صحیح ہے؟
(2): سورۃ الکوثر کی بنیاد پر بریلویوں کے اعلی حضرت کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ معطی ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قاسم ہیں ساری کثرت پاتے یہ ہیں
رب معطی ہے، یہ ہیں قاسم
رزق اس کا ہے، کھلاتے یہ ہیں۔
ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا
پیتے ہم ہیں، پلاتے یہ ہیں۔
رب سلم کی ڈھارس سے
پل سے پار چلاتے یہ ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے؟
جواب
اصولی بات یہ ہے کہ جو لوگ اس میلاد کے دلائل پیش کر رہے ہیں، یہ سب مقلد ہیں، مقلد قول امام پر فتویٰ دینے کا پابند ہوتا ہے، جیسا کہ فتویٰ رضویہ میں ہے، اس کو استنباط اور استخراج کا ملکہ نہیں ہوتا ہے، اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے، تو ان سے سوال یہ ہے کہ آپ جو مروجہ میلاد مناتے ہیں، یہ کونسی کتاب میں ہے، جو اصولی بنیادی کتابیں ہیں، ہدایہ، قدوری، وغیرہ مقلد کو اپنا دین اپنی کتاب سے لینا چاہیے۔ یہی اس کا جواب ہے۔ یہ جو اس قدر ترجمانی کر رہا ہے کہ کیا یہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے، تم بات بات پر امام صاحب کی تقلید کی بات کرتے ہو، تو تمہیں امام صاحب سے دلیل دینی چاہئے، کیا امام ابوحنیفہ نے سورۃ الکوثر کی یہی تفسیر کی ہے، “الله معطی و انا قاسم” کی یہی تفسیر کی نہیں، امام صاحب نے نہیں کی ہے، تو پھر مقلد پابند ہے کہ امام صاحب سے قول پیش کرے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
موصوف کہ رہے ہیں کہ ہم جو میلاد مناتے ہیں یہ تو شرک کے خاتمے کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ شرک یہ ہے کہ نبیﷺ کو خدا مانا جائے اور خدا کی یہ صفت ہوتی ہے کہ لم یلد ولم یولد پس جب ہم نبی ﷺ کا میلاد منائیں گے تو سمجھو کہ اسکی ولادت کا اقرار کر لیں گے اور اسکے خدا ہونے کا انکار ہو جائے گا یعنی میلاد شرک کے خاتمے کا سبب بنے گا۔
تو بھائی اگر کل کو کوئی اسی نیت سے کرسمس منانا شروع کر دے کہ جب ہم کرسمس منائیں گے تو کرسمس تو عیسی کی پیدائش کی خوشی میں منایا جاتا ہے پس جس کی پیدائش ہو وہ خدا تو ہو نہیں سکتا پس جب ہم سب مسلمان کرسمس منانا شروع کر دیں گے تو پھر سارے عیسائی خود بخود مسلمان ہو جائیں گے واہ کیا خوب فارمولا دیا ہے شرک کے خاتمے کا۔ سبحان اللہ
وہ شیخ چلی والی بات یاد آگئی کہ اس نے انڈے سر پہ اٹھائے ہوئے بازار بیچنے جا رہا تھا اور سوچے جا رہا تھا کہ میں جا کر انکو بیچوں گا اور منافع ہو گا اور میں امیر ہوتا چلا جاوں گا شادی کروں گا بچے ہوں گے اور وہ مجھ سے پیسے مانگیں گے اور میں سر ہلا کر ایسے ناں کروں گا اور پھر وہ جب سر ہلاتا ہے تو سارے انڈے ہی گر جاتے ہیں اس پہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ کیا کریں انڈے ہی گر گئے یہاں بھی ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوا کہ شرک کو ختم کرنے لگے تھے اور سارے عیسائی مسلمان کرنے لگے تھے مگر انڈے ہی ٹوٹ گئے۔
دیکھیں بھائی اب علمی بات کرتے ہیں کہ نبی کو خدا کے معنی میں کوئی نہیں مانتا ہے بلکہ نبی کو مشکل کشا کے معنی میں لوگ مانتے ہیں پس جو شرک یہاں پایا جاتا ہے وہ نبی کو خدا ماننے کا نہیں بلکہ مشکل کشا ماننے کا ہے اسکے بچاو کی کوئی حکمت بتائیں یعنی لوگوں کو یہ بتائیں کہ رسول اللہ ﷺ مشکل کشا کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ قرآن میں اللہ کہتا ہے کہ:
قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ ولو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر وما مسنی السوء،
یعنی اللہ نے اعلان کروایا کہ اے نبیﷺ انکو بتا دو کہ میں اپنے نفع نقصان کا بھی مالک نہیں اور آگے جو الفاظ کہے اس نے تو مشکل کشا ہونے کی جڑ ہی کاٹ دی اللہ نے کہا کہ انکو کہو کہ اگر میں غیب جان لیتا ہوتا تو میں اپنے لئے ہمیشہ بھلائی ہی اکٹھی کرتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ آتی
یعنی اگر کسی کو علم ہو کہ یہ کمرہ گرنے والا ہے تو وہ فورا اس کمرہ سے نکل جائے گا اور اسکو کوئی تکلیف نہیں ہو گی پس یہ واضح ہوا کہ اصل مسئلہ مشکل کشا کا ہے خدا ہونے کا نہیں ہے اور میلاد میں جتنی نعتیں پڑھی جاتی ہیں اس میں نبی ﷺ کو اکثر میں مشکل کشا ہی بنایا ہوتا ہے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ