سوال (1115)

کیا میزان بینک اسلامک میں سیونگ اکاؤنٹ کھولنا جائز ہے؟

جواب

بالکل جائز نہیں ہے، یہ صرف اسلامک نام کی حد تک ہے، ان میں بھی وہی اصول اور قوانین ہیں جو دوسرے بینکوں کی ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ یہ سوال اس لیے پوچھا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ بینکوں کا طریقہ کار صحیح ہے، مثلاً سعودیہ میں ایک بینک “الراجحی” ہے، اس کے بارے میں کچھ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ صحیح ہے، حالانکہ آپ مکمل فتویٰ پڑھیں تو علماء نے اس میں بھی سیونگ اکاؤنٹ کھولنے کو حرام کہا ہے۔

فضیلۃ العالم عمر اثری حفظہ اللہ

یہ سارے سود پر قائم ہیں اور اسی پر آپ سے میثاق لیتے ہیں، اگرچہ امر واقع میں آپ کا اس سے واسطہ نہ پڑے میں نے شیخ وصی اللہ عباس(مدرس حرم مکی و سابق استاذ ام القری یونیورسٹی)حفظہ اللہ سے سنا کہ کسی بینک میں اکاؤنٹ نہیں کھلوانا چاہیے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

سوال: میزان بینک میں اکاؤنٹ کھولنا کیسا ہے؟

جواب: کوئی بھی صورت نہ ہونے کی وجہ بصورت مجبوری اہل علم نے کسی بھی بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دی ہے، تاکہ آپ کے پیمینٹ کا آنا جانا آسان ہو سکے، اس کے علاؤہ کوئی چارے کار نہیں ہے، جب کوئی چارے کار نہیں ہوتا ہے تو اضطراری حالت میں گنجائش دی جا سکتی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“فَمَنِ اضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِ‌ؕ” [البقرة: 173]

«پھر جو مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں»

حالت مجبوری میں اپنے معاملات حل کرنے کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ کی اجازت ہے، اگرچہ یہ بھی صحیح نہیں ہے، اس میں براہ راست نہ سود آپ کے رہے ہیں اور نہ ہی دے رہے ہیں، پیمینٹ کی ترسیل کے لیے گنجائشیں دی گئی ہے، خواہ وہ کونسا بھی بینک ہو۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: کرنٹ اکاؤنٹ کھولنا کس طرح صحیح ہے، حالانکہ ہمارے پیسے ان کے پاس جاتے ہیں، وہ بھی سود میں لگ جاتے ہیں تو یہ کس طرح صحیح ہوا ہے؟

جواب: کرنٹ اکاؤنٹ کے حوالے سے میں نے یہ کہا ہے کہ جب کوئی صورت نہ ہو، پھر اضطرار اور مجبوری کا فتویٰ لگتا ہے، اگر کوئی اس سے بھی اپنا دامن بچاتا ہے تو اچھی بات ہے، لیکن فلحال آپ کے پاس معاشرے اور دنیا میں اور کوئی صورت نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حرام چیزیں بیان کی ہیں، بعد میں کہا ہے کہ جو مجبور ہو جائے، اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، وہاں مردار، خنزیر اور خون کا ذکر ہے، غیر اللہ کی نذر و نیاز کا بھی ذکر ہے، کرنٹ اکاؤنٹ مجبوری کی ایک شکل ہے، ہم نے یہ نہیں کہا ہے کہ وہ سود سے خالی ہے، ہم نے کہا ہے کہ وہ آپ کو سود نہیں دیتے ہیں، لیکن ہمارے پاس کوئی صورت نہیں ہے، پیمنٹ لینے اور دینے کے لیے علماء نے مجبوراً اجازت دی ہے، ویسے جو بڑا کام کرتے ہیں، ان کے کنٹینر انشورڈ ہو کر آتے ہیں، انشورڈ ہو کر جاتے ہیں، ویسے ہم انشورنس کو جائز نہیں کہتے ہیں، عالمی قانون یہی ہے، جب آپ بڑا کام کریں گے تو آپ کے کنٹینر کو انشورنس کرانا ہوگا، بس یہ مجبوری کے احکامات ہوتے ہیں، جی پی فنڈ میں آپ کی جو اصل رقم ہے وہ آپ کے لیے سو فیصد جائز ہے، جو اضافہ ہوتا ہے، بڑھا کر دیا جاتا ہے، وہ سود سے دیا جاتا ہے، بعض کاغذات پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ سود کا پیسہ ہے، وہ آپ کا حق نہیں ہے، البتہ وہ پیسا وہاں نہ چھوڑیں، نکال لیں، اس کا حل پھر کوئی اور ہوگا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: کیا سیونگ اکاؤنٹ کو یہ سوچ کر اوپن کیا جا سکتا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ ہوا تو وہ سود اپنے پاس رکھیں گے، جبکہ میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوا کر پیسہ نکلوا کر کسی رفاہی کام میں لگوا دوں گا، یہ کلپ بھی ملاحظہ کر لیں ممکن ہے میرے اس سوال میں کوئی غلطی رہ گئی ہو

جواب: یوسف طیبی صاحب نے جو موقف بیان کیا ہے، عموما اہلِ علم کی رائے اس سے مختلف ہے، ان کے نزدیک سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا کسی صورت جائز نہیں۔ اور اس نیت سے سود لینا بھی جائز نہیں کہ میں رفاہی کاموں میں لگا دوں گا.

رفاہی کام کرنا ایک مستحب امر ہے، جبکہ سود لینا حرام ہے، مستحب کے لیے حرام ارتکاب کسی طور درست نہیں ہے۔

شیخ نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ اگر آپ سود نہیں لیں گے تو وہ خود رکھ لیں گے، لہذا بہتر ہے کہ آپ ہی لے لیں، یہ عذر اہل علم نے بالکل قبول نہیں کیا اور فرمایا ہے کہ آپ سود بالکل نہ لیں، وہ خود جس کو مرضی دیں، یا جیسے مرضی کریں، اس کے وہ خود جوابدہ ہیں۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

“اسلام میں پھولن دیوی کا کردار ادا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یعنی یہ سوچ کہ میں اس لیے لوگوں کو لوٹتا ہوں تاکہ غریبوں کو دے سکوں، اسلام اس طرزِ عمل کو ہرگز جائز نہیں ٹھہراتا۔ اسی طرح، کرنٹ اکاؤنٹ اصل میں جائز نہیں ہے، لیکن مجبوری کے تحت علماء کرام نے اس کی کچھ گنجائش دی ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور ہر کام میں مجبوری کی آڑ میں گنجائشیں نکالتا چلا جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ