سوال (3305)

مشائخ ایک سوال کی وضاحت مطلوب ہے، شوہر نے بیوی کو پہلی طلاق دی ہے، اس کے بعد رجوع کر لیا تھا، دوسری دفعہ جب معاملات خراب ہوئے تھے تو شوہر نے کہا ہے کہ “میں تمہیں طلاق” یہ کہا تھا، لیکن دیتا ہوں نہیں کہا تھا، اب تیسری طلاق بھی دے چکا ہے، سوال یہ ہے کہ آیا یہ دوسری جو طلاق ہے، وہ کاؤنٹ ہوگی یا نہیں، شوہر کو رجوع کا حق ہے؟

جواب

ارادہ کر کے ہی یہ الفاظ کہے ہیں، اس لیے قابل اعتبار ہیں۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

سائل: سوال کی مزید وضاحت یہ ہے کہ دوسری طلاق کے موقع پر شوہر نے اتنے الفاظ ہی کہے تھے “میں تجھے طلاق”۔ کہ بیوی نے شوہر کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا، جس وجہ سے وہ جملہ مکمل نہیں کر پایا تھا اور پھر بڑبڑاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔
جواب: نیت و ارادہ طلاق دینے کا ہی تھا، الفاظ بھی تقریبا پورے ہی ہیں۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

شیخ واللہ اعلم طالب علم کی رائے یہ ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوئی اگر چہ نیت طلاق ہی کی تھی کیونکہ فقط نیت سے طلاق نہیں ہوتی بلکہ ساتھ میں طلاق کا صریح جملہ یا کنایہ مع نیۃ الطلاق ہو تو تب واقع ہوتی ہے۔
شوھر کا ارادہ تھا لیکن اللہ نے بیوی کے ہاتھ منہ پر رکھنے کی وجہ سے جملہ مکمل ہونے سے بچا لیا تو یہ ناقص جملہ٘ طلاق نہ تو صریح رہا اور نہ ہی کنایہ۔
رہ گئی محض نیت تو اسکی بناء پر طلاق واقع نہیں ہوتی۔
جیسا کہ کوئی شخص گناہ کا ارادہ کرے لیکن پھر وہ گناہ نہ کرے تو وہ گناہ نہیں لکھا جاتا بلکہ نیکی لکھی جاتی ہے۔
یہ شخص جب غصہ کی حالت میں کمرے سے باہر جارہا تھا تو تب یہ پوری طلاق دے سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا، لہذا پتہ چلا کہ اسکا ارادہ تھا لیکن روک دئیے جانے کے بعد وہ رک گیا۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

شبہ کی رعایت دے سکتے ہیں لیکن یہاں تو الفاظ بھی تقریبا پورے ہیں۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

شیخ محترم میری رائے یہ ہے کہ اسکے کئی احتمال ہو سکتے ہیں کہ وہ آگے کیا کہنا چاہتا تھا مثلا ایک احتمال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں تمھیں طلاق۔۔۔ دوں گا یا کوئی قید لگا دے یا نہیں دوں گا چاہے تم کتنا تنگ کر لو وغیرہ
اور مشہور قاعدہ ہے کہ اذا ورد الاحتمال بطل الاستدلال، پس وہ الفاظ نہ تو صریح نہ کنایہ میں طلاق کے الفاظ ہیں، پس میرے علم کے مطابق طلاق نہیں ہونی چاہیے واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

الفاظ تھے میں طلاق دیتا اور حالات و واقعات بھی دینے پر ہیں، دو مرتبہ مکمل کہہ چکا ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

شیخ محترم میں نے جو سوال پڑھا تھا اس میں خالی لکھا تھا کہ اس نے کہا میں تمھیں طلاق۔ اور آگے روک دیا گیا اس وقت اس مجلس میں اور کوئی طلاق نہیں دی گئی نہ کوئی الفاظ کہے گئے باقی اس میں حالات کیا تھے فرض کریں بہت غصہ والے تھے لیکن کوئی سمجھتا ہے کہ میری بیوی جان کر مجھے غصہ دلا کر طلاق لینا چاہتی ہے تو وہ کہ سکتا ہے کہ میں تمھیں طلاق نہیں دوں گا چاہے تم جتنی نافرمانی کر لو وغیرہ اس لئے لکھا تھا کہ چونکہ ایک واضح احتمال موجود ہے تو طلاق جیسے مسئلہ میں خود احتمال کو فکس کرنا درست نہ ہو واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

مکمل بات اوپر ہے ، دیکھ لیں ، باقی احتمال کا فائدہ دیا ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ