میرا جسم میری مرضی کا نیا ورژن

✍️ کامران الہی ظہیر

زندگی بعض اوقات ایسے سوال ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے جن کے جواب صرف سوچوں کی گہرائیوں سے نہیں، روح کے زخموں سے برآمد ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں ایک ایسا ہی سوال سوشل میڈیا کی ایک ویڈیو کی صورت میں سامنے آیا جسے دیکھ کر دل لرز گیا، آنکھیں پُر نم ہو گئیں اور زبان بے اختیار ہو گئی۔ ایک عورت، جو کبھی اسکرین کی روشنیوں میں جگمگاتی تھی، ایک روز تنہا، بے سہارا، اور گمنامی کے اندھیروں میں اس حال میں پائی گئی کہ اس کا جسم سڑ چکا تھا، گوشت کیڑے کھا چکے تھے، اور پورے کمرے میں تعفن پھیلا ہوا تھا۔ وہ عورت، جو کبھی “خود مختاری” اور “آزادی” کی علامت سمجھی جاتی تھی، آخرکار اس حالت میں ملی کہ نہ کوئی تیمار دار، نہ کوئی ماتم کرنے والا، اور نہ کوئی رشتہ دار۔
پولیس جب گھر والوں کے پاس پہنچی تو گویا کسی اجنبی کی بات کر رہی ہو، جواب ملا کہ “ہم نے اس سے تعلق توڑ دیا تھا، ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں، جو کرنا ہے کر لو۔” وہ رشتہ جسے اللہ تعالیٰ نے رحمت بنایا، وہ خاندان جو عورت کا اصل قلعہ ہوتا ہے، آج اُسی خاندان کے دروازے بند تھے۔ اور بند بھی کیوں نہ ہوں؟ جب برسوں پہلے وہ دروازے خود اس عورت نے “اپنی مرضی” کے نام پر بند کیے تھے۔

یہ وہی نعرہ ہے جو کئی برسوں سے گلیوں، چوراہوں اور اسکرینوں پر گونج رہا ہے: “میرا جسم، میری مرضی!” اس نعرے کے پیچھے چھپے فتنے کو جب سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو آزادی، خود مختاری، برابری، اور نسوانی حقوق کے خوشنما الفاظ میں لپٹا ایک گہرا زہر سامنے آتا ہے۔ ایک ایسا زہر جو عورت کو ماں، بہن، بیٹی یا بیوی بننے سے پہلے “شے” بنا دیتا ہے۔ وہ شے جو بظاہر اپنی مرضی کی مالک ہے، مگر درحقیقت اپنی فطرت، اپنے دین، اور اپنے خاندان سے کاٹ دی گئی ہوتی ہے۔

فیمنزم کے نام پر، روشن خیالی کے دعوے کے ساتھ، کچھ عورتیں معاشرے کو اس سمت دھکیل رہی ہیں جہاں نہ رشتے باقی رہتے ہیں نہ روایات۔ وہ لڑکی جو سوشل میڈیا پر اپنے جسم کو “آرٹ” کہہ کر پیش کرتی ہے، وہ دراصل اپنی عزت کا سودا کر رہی ہوتی ہے، اور اسے خبر بھی نہیں۔ جس تحریک نے عورت کو باوقار بنانے کا دعویٰ کیا تھا، آج وہی تحریک عورت کو بازار کا اشتہار بنا کر چھوڑ چکی ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ اس سارے سفر میں وہی کچھ باقی رہتا ہے جو اس حالیہ واقعے میں دکھائی دیا: تنہائی، گمنامی، اور لاش۔

ہماری بیٹیوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی مالک ہیں، انہیں کسی کی روک ٹوک کی ضرورت نہیں، نہ باپ کی اجازت، نہ بھائی کی نگرانی، نہ دین کے احکامات۔ مگر جب یہی بیٹیاں تنہائی کے اندھیرے میں گم ہو جاتی ہیں، جب جسم گلنے لگتا ہے، جب بدبو چار دیواری سے باہر آنے لگتی ہے، تب نہ کوئی عورت مارچ ان کے حق میں نعرہ لگاتا ہے، نہ کوئی فیمنسٹ لیڈر ان کا مقدمہ لڑتا ہے، اور نہ ہی کوئی اس آزادی کی فاتحہ پڑھتا ہے۔ سب خاموش، سب غائب۔
یہ لمحہ ہمارے لیے ایک آئینہ ہے۔ ایک ایسا آئینہ جو بتاتا ہے کہ سچی آزادی نفس کی غلامی سے نکل کر اللہ کی بندگی اختیار کرنے میں ہے۔ عورت کا اصل مقام وہی ہے جو اسلام نے دیا: عزت، تحفظ، محبت، وفاداری، اور تقدس۔ وہ مقام جو ماں کے قدموں تلے جنت رکھتا ہے، وہ مقام جو بیٹی کو رحمت بناتا ہے، اور وہ مقام جو بیوی کو سکونِ قلب عطا کرتا ہے۔ یہ مقام نہ بینرز پر لکھا جاتا ہے، نہ جلوسوں میں بانٹا جاتا ہے، بلکہ ایمان، حیا اور اطاعت کے سجدوں میں پیدا ہوتا ہے۔
اگر آج بھی ہم نے ان جھوٹے نعروں کے پیچھے بھاگنے سے انکار نہ کیا، اگر ہم نے اپنی نسلوں کو گھر کی قدر، رشتوں کی اہمیت، اور دین کی راہنمائی نہ سکھائی، تو شاید اگلی لاش کسی اور کی ہو، اگلا در بند کسی اور کا ہو، اور اگلا جملہ یہی ہو: “ہم اس سے پہلے ہی قطع تعلق کر چکے ہیں، جو کرنا ہے، کر لیں۔”
ابھی وقت ہے۔ لوٹ آئیے۔ صرف اپنے خاندان کی طرف نہیں، اپنے رب کی طرف۔ وہی رب جو ہر حال میں ساتھ دیتا ہے، جو تنہائی کو مٹا دیتا ہے، جو توبہ کے ایک آنسو پر زندگی کی سڑاند کو خوشبو میں بدل دیتا ہے۔ ورنہ یہ دنیا صرف منظر بدلتی ہے، انجام نہیں۔

#خیالات_ابن_الاعرابی