مجھے شائد گیارہ برس ہو گئے یہاں سوشل میڈیا پر – اس بیچ بہت سے معاملات نظر سے گذرے – بعض مذہبی افراد بھی اس خرابی میں مبتلاء دکھائی دیے اور لبرلز کے ہاں تو یہ خرابی ہے ہی نہیں کہ جب تک کپڑے نہ اتر جائیں – جی نہیں الفاظ غلط لکھ گیا …جب تک کپڑے بیچ چوراہے کے نہ اتر جائیں – تفصیل رات لکھ چکا ، میری وال پر موجود ہے –
خواتین اور مردوں کے معاملات میں خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنے تخلیق کار کی قائم کی گئی حدود کو پامال کرتے ہیں – جب آپ کسی مشین کو اس کے بنانے والے انجینئر کی ہدایات کے خلاف چلانے کی کوشش کریں گے تو مشین کی بربادی مقدر ہو گی –
اللہ نے جنس مخالف میں کشش ضرور پیدا کی ہے ، لیکن اس کی حدود و قیود بھی مقرر کی ہیں – جنس مخالف میں کشش کا مقصود نسل انسانی کی بڑھوتی ہے مگر پاکیزگی کے ساتھ –
سوشل میڈیا پر خرابی کا بنیادی سبب حد سے بڑھا ہوا رابطہ ، اختلاط ، بے تکلفی ہے —- مجھے یقین ہے کہ بہت سے دوست میری بات کو تنگ نظری کہیں گے ، اور یہ کہ :
“عورت کو ڈربے میں بند کر دو ”
کی آوازیں لگائیں گے – لیکن ہم بے نیاز لوگ ، سوشل میڈیا پر اپنی بات کہنے آئے ہیں کسی ملامت گر کی ملامت کی کیا پرواہ کریں گے –
ویسے بھی آج میری مخاطب میری وہ بہنیں ہیں کہ مذہبی اقدار اور اخلاقی اقدار پر ویسا ہی یقین رکھتی ہیں جو اہل اسلام کا وتیرہ ہے – جو باپردہ ہیں ، جو پاکباز ہیں ، حیا جن کا زیور ہے اور شرم جن کا بچھونا ، اسلام کے حقیقی اصولوں کو معیار حق سمجھتی ہیں –
میری بہنو !
پہلا غلط عمل آپ کی “فرینڈ لسٹ ” موجود غیر محرم ہیں – انتہائی مجبوری کا فیصلہ آپ نے اپنے ضمیر کی روشنی میں کرنا ہے ، اصول اسلام کے آپ کو معلوم ہیں ، لیکن ہے یہ غلط ہی – خود میری لسٹ میں چند خواتین ہیں جن کی موجودگی صرف اس سبب سے ہے کہ میرا لکھا طبقہ خواتین میں پہنچ جائے – اور اس پر بھی مجھے کوئی اطمینان نہیں ہے –
دوسری خرابی تب پیدا ہوتی ہے کہ جب کمنٹس میں بات ” ٹو دی پوائنٹ ” سے بڑھ کے ہنسی مذاق تک پہنچ جاتی ہے –
یاد رکھیے ! مردوں کے دل بیمار ہوتے ہیں ، اور یہ میں نے نہیں کہا بلکہ بنانے والے نے کہا ہے – ممکن ہے کوئی ایک کہہ اٹھے کہ نہیں جی ہم ایسے نہیں ..تو جناب ممکن ہے آپ ایسے ہی ہوں ، انتہائی باکردار لیکن کیا سب ہی ایسے ہیں ؟؟
پیمانہ اب آپ اکیلے کے لیے تو طے نہیں کیا جائے گا –
سو بہن جی ، کمنٹس میں یہ “ہاتھ پر ہاتھ مارنا ” ترک کیجئے – بات بری لگی ؟؟
لیکن بہن / سوشل میڈیا پر “ہاہاہاہا . لوو سائن ” ہاتھ ہاتھ پر ہاتھ مارنا ہی کہا جائے گا – جو بے تکلف دوست آپس میں کرتے ہیں –
ہاں میری بہن ! یہ “شیخ صاحب ، شیخ صاحب ” کہہ کے بھی کوئی ایسی تعریف کی ضرورت نہیں ہوتی ..اگر آپ کو کسی کی پوسٹ اچھی لگتی ہے ، تو اس کا بہترین اظہار اس کو شیئر کرنا ہے – بہت کمنٹ کرنے کو جی چاہے تو دعا دے دیجیے –
خاتون ! خرابی سب کی نیت میں نہیں ہوتی ، نظر ہر کسی کی خراب نہیں ہوتی – لمحہ ایک ہی ہوتا ہے جو مضبوط ارادوں کو بھی کمزور کر جاتا ہے – ایک ہی لہر ہوتی ہے جو مضبوط بند توڑ جاتی ہے – اور اس لہر سے بچنے کی یہی صورت ہے کہ پانی کو وہاں تک آنے ہی نہ دیا جائے کہ بند ٹوٹ جائیں –
عربی کا ایک شعر ہے کہ جس کا مفھوم آپ کی نذر:
” مجھے میرے قبیلے والے لوگ طعنہ دیتے ہیں کہ تو اس کا عاشق ہے کہ جس کو تو نے دیکھا نہیں ، حالانکہ تو نے اس کو دیکھا تک نہیں – میں ان کو کہتا ہوں کان بھی کبھی آنکھ کا کام کرتے ہیں ، کیا ہوا جو میں نے اسے دیکھا نہیں ، اس کی آواز تو سنی ہے ”
بیٹیو ! ان باکس کو تو اپنی زندگی سے نکال دیجیے – اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ
“دو اجنبی مرد و عورت کی تنہائی میں تیسرا شیطان ہوتا ہے ”
اور یہ بھی طے ہے کہ شیطان کا وار مذہبی افراد پر ہی زیادہ ہوتا ہے – کیونکہ اس کا ہدف ہی وہی ہیں – جو پہلے ہی اس کے مشن پر ہیں ان کی اسے بھلا کیا فکر –
………..
سو میری بہن ! یہ سوشل میڈیا ایسی جگہ ہے کہ جہاں خرابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں ، اصلاح اور بہتری کے کم – اس لیے آپ کو یہاں حد درجہ احتیاط سے چلنا ہو گا – کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اپنی دانست میں بہت دین کی خدمت کر رہی ہیں اور فرشتے کچھ اور ہی لکھ رہے ہیں –
خدارا ایسی مسجد نہ بنایئے گا کہ جس میں نماز پڑھ کے لوگ جنت کو چلے جائیں اور مسجد بنانے والا جہنم کو – بہت تلخ بات کر دی نا ؟
دیکھیے ، ابوبکر قدوسی صاحب ، بہت شیخ صاحب بنے فیس بک پر لوگوں کو دین کی طرف بلاتے ہیں اور ان باکس میں “گل” کھلاتے ہیں – تو یہ وہی مسجد ہو گی جس میں مجھے پڑھنے والے ممکن ہے میری کسی ایک بات سے زندگی بدل لیں اور میں ……….
“اللھم اجرنی من النار ”

ابوبکر قدوسی